5جولائی 1977ء‘جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ملک کے پہلے منتخب اور بلاشبہ انتہائی پاپولر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا دن ہے۔ 46برس گزر جانے کے بعد بھی اسے مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھنے والے لوگ موجود ہیں مگر ایک بات پر سبھی متفق نظر آتے ہیں کہ ضیاء الحق کے اس اقدام سے پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے سیاہ دور کا آغاز ہوا جس کے قومی زندگی کے ہر شعبے میں چھوڑے ہوئے منفی اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
نصف صدی کے قریب گزر نے کے بعد بھی پیچھے مڑ کر جب ایک نگاہ اس واقعے پر ڈالتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ اس میں ملوث یا اس سے متاثر ہونے والے فریقین نے کیسی کیسی امیدوں اور توقعات کے ساتھ اس واقعے کا استقبال کیا تھا‘ اور پھر ان امیدوں اور توقعات کا کیا حشر ہوا‘ مثلاً بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے والی اپوزیشن پارٹیوں کے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی قوت یا ہر دلعزیزی کا انحصار صرف اقتدار کی کرسی پر تھا اور انہیں یقین تھا کہ جس دن بھٹو کو اقتدار کی کرسی سے اتارا جائے گا‘ اسی دن ان کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ اس بیانیے کو عام کرنے میں اپوزیشن رہنما ایئر مارشل (ر) اصغر خان اور نسیم ولی خان پیش پیش تھے۔ ان دونوں رہنمائوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے خلاف تھے‘ اور اس بات کے حق میں تھے کہ بھٹو اقتدار سے الگ ہوں یا مقتدرہ اقتدار پر قبضہ کرکے عام انتخابات کرائے۔ ایئر مارشل اصغر خان نے تو اس مقصد کے حصول کے لیے مقتدر حلقوں کو خط بھی لکھ دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور پیپلز پارٹی کے رہنما مولانا کوثر نیازی کے مطابق‘ یہ دونوں رہنما شروع سے ہی بھٹو کے ساتھ مذاکرات کے خلاف تھے بلکہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں بھی ان دونوں کا ہاتھ تھا‘ مگر اگست 1977ء میں لاہور کے ہوائی اڈے پر عوام کے جس فقیدالمثال ہجوم نے ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کیا تھا‘ اس نے ان سب کے اندازے غلط ثابت کر دیے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے ایئر پورٹ پر بھٹو کے اس عوامی استقبال نے صدر ضیاء الحق کو بھی حواس باختہ کر دیا تھا کیونکہ اپوزیشن کی طرح وہ بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ بھٹو کی سیاسی قوت اقتدار کی کرسی سے نتھی ہے اور اگر انہیں اقتدار سے محروم کر دیا جائے تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ مگر بھٹو کی مقبولیت سے خائف ہو کر انہوں نے اکتوبر 1977ء میں انتخابات کا اعلان واپس لے لیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے والوں نے ضیاء الحق کو یقین دلایا تھا کہ بھٹو کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد وہ‘ یعنی پاکستان قومی اتحاد (PNA) ملک کو ایک مضبوط متبادل حکومت فراہم کریں گے‘ لیکن صدر ضیا کو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ قومی اتحاد کے جھنڈے تلے جمع ہونے والی نو سیاسی جماعتوں میں بھٹو کی سیاسی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے نہ صرف اکتوبر 1977ء میں اعلان کردہ انتخابات منسوخ کر دیے بلکہ بھٹو کو گرفتار کرکے ان پر پیپلز پارٹی کے ہی ایک سابق رکن اور ایم این اے احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری کے مبینہ قتل کے الزام میں مقدمہ دائر کر دیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی۔اگر صدر ضیاالحق اور ان کے سیاسی حامی یعنی پی این اے والے‘ 5جولائی 1977ء کے مارشل لا کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا تھے تو پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس بارے میں مکمل طور پر غلط اندازے لگائے تھے۔ اول تو بھٹو صاحب کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ضیاالحق اپنے محسن کے خلاف ایسا کوئی اقدام کر سکتے تھے۔
اردن میں بلیک ستمبر کے نام سے مشہور فلسطینیوں کے خلاف ایکشن اور اٹک ٹرائل میں پیپلز پارٹی کی نئی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے افسران کو سخت سزائیں سنانے والے صدر ضیا الحق‘ بھٹو کی نظر میں ان کے اعتماد کے مستحق تھے۔ جیل کی کال کوٹھڑی میں تحریر کردہ اپنی کتاب ''If I am Assassinated‘‘ میں بھٹو صاحب نے خود اعتراف کیا کہ وہ ضیاء الحق کی شخصیت کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ 5جولائی کی کارروائی اور ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی کے بارے میں پیپلز پارٹی اور اس کے کارکن ایک واضح اور غیر مبہم رویہ اختیار کرنے میں ناکام رہے‘ بلکہ اس وقت کی نچلی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ خاکسار کی جو بات ہوئی اس کے مطابق پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں یہ تاثر عام تھا کہ یہ اقدام بھٹو صاحب کی حکومت نہیں بلکہ پی این اے کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں جو کردار اداکیا تھا‘ اسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایٹمی پروگرام کا اعلان کرکے اور مشرقِ وسطیٰ خصوصاً خلیجی ممالک میں پاکستان کی فوج کے لیے مواقع پیدا کرکے بھٹو صاحب نے پاکستانی فوج کو مستقبل کا جو نقشہ دکھایا تھا‘ فوج اس سے متاثر تھی۔
اس کے مقابلے میں پی این اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے والی سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کے لیے کوئی وژن نہیں تھا‘ لیکن حکومت سے محروم ہونے کے باوجود بھٹو صاحب کی ہر دلعزیزی کا برقرار رہنا ایک ایسا چیلنج تھا جسے ضیاء الحق نے اپنی ذات کے لیے خطرے کا پیغام سمجھا گیا۔ بعض حلقے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھٹو صاحب کے نظریے سے خائف تھے۔ بھٹو صاحب سویلین بالادستی کے حق میں تھے لیکن وہ حلقے ایک سیاسی اتھارٹی کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس کے علاوہ 1977ء تک ملکی ادارے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت موجود تمام کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پا کر طاقتور بن چکے تھے اور اپنا کھویا ہوا وقار اور اعتماد بھی حاصل کر چکے تھے۔ اس مقام کو حاصل کرنے میں خود ذوالفقار علی بھٹو کا بہت بڑا حصہ تھا‘ مگر سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں اٹھائے جانے والے نقصانات کو پورا کر کے بھٹو صاحب کی فیاضانہ پالیسیوں سے مستفید ہو کر بھٹو صاحب کی اس فیاضی کو یکسر بھلا دیا گیا۔
بھٹو صاحب کو زعم تھا کہ ضیاء الحق کسی صورت ان کی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے‘ لیکن 5 جولائی سے بہت پہلے صدر ضیا نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ اس مقصد کے لیے اپریل 1977ء میں صدر ضیانے اہم ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان کی یہ ملاقاتیں خفیہ نہیں تھیں‘ مگر ان ملاقاتوں میں جو باتیں ہوئیں‘ انہیں خفیہ رکھا گیا اور بھٹو صاحب ان سے آگاہ نہ ہو سکے کیونکہ ان کو آگاہ کرنے والے وزیر اعظم کے بجائے کسی اور کے وفادار ہو چکے تھے۔