"DRA" (space) message & send to 7575

طالبان اور افغان خواتین

''افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے تمام ملک میں بیوٹی پارلر بند کر دیے ہیں‘‘۔ یہ خبر پڑھ کر دھیان یکدم افغان طالبان کی پہلی حکومت (1996-2001ء) کی طرف چلا گیا جب ستمبر 1996ء میں صدر نجیب اللہ خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملا عمر کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کے اولین لمحات میں ٹی وی پر پابندی عائد کرنے اور عورتوں کے اکیلے باہر نکلنے کے علاوہ نیل پالش اور لپ سٹک کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ کچھ عرصہ بعد سابق صدر پرویز مشرف کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ افغانستان کی صورتحال سے پاکستان کی قومی سلامتی کو جن نئے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ ان میں افغانستان سے وسیع پیمانے پر سمگلنگ بھی شامل ہے۔ سابق صدر مشرف کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدر کے مطابق پاکستان کے صنعتکاروں‘ تاجروں اور بزنس مینوں پر مشتمل ایک وفد نے صدر سے ملاقات کے دوران اس سنگین صورتحال پر کنٹرول کرنے کی درخواست کی تھی۔ جب صدر مشرف کی ہدایت پر اس مسئلے کی انکوائری کی گئی تو معلوم ہوا کہ افغانستان سے پاکستان سمگل ہونے والی اشیا میں ٹی وی سیٹ‘ شیونگ کا سامان اور خواتین کے استعمال میں آنے والا کاسمیٹکس کا سامان بھی شامل تھا۔ اس سامان کو افغانستان کی طالبان حکومت پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت کراچی کی بندرگاہ سے درآمد کرتی تھی۔ چونکہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت کراچی سے پاک افغان سرحد پر طورخم تک کنٹینرز کو کھولنے پر پابندی تھی‘ اس لیے یہ سامان سیدھا بغیر کسی چیکنگ کے افغانستان پہنچ جاتا تھا اور پھر وہاں سے پاکستان سمگل ہوتا تھا۔
ایک ریسرچ پیپر کی تیاری کے سلسلے میں جنرل(ر) معین الدین حیدر کیساتھ انٹرویو کے دوران معلوم ہوا کہ صدر مشرف کی ہدایت پر پاکستان کے ایک وفد نے کابل کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس وفد کی قیادت وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے جنرل صاحب خود کر رہے تھے۔ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے مطابق وفد نے ملا عمر سے بھی ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ افغانستان میں مردوں کے لیے داڑھی منڈوانا منع ہے‘ خواتین پر میک اَپ کے سامان کے استعمال پر پابندی ہے اور ٹی وی رکھنا اور دیکھنا ممنوع ہے‘ تو انہوں نے بتایا کہ اس کا تعلق کاروبار سے ہے مذہب سے نہیں‘ اس لیے ہم ان اشیا کی درآمد نہیں کر سکتے۔ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے مطابق جب تک طالبان کی پہلی حکومت قائم رہی‘ افغانستان خواتین کے میک اَپ کے سامان کے علاوہ ٹی وی سیٹ اور ریزرز ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت بند کنٹینرز میں درآمد کرتا رہا اور وہاں سے یہ سامان سمگل ہو کر پاکستان کی باڑہ مارکیٹس میں فروخت ہوتا رہا۔ پاکستان کے تجارتی اور صنعتی حلقوں کے مطابق اس سمگلنگ سے پاکستان کو ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا تھا کیونکہ اس پر کسی قسم کی کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی جاتی تھی۔ طالبان کی موجودہ حکومت‘ جس نے 5اگست 2021ء کو کابل پر قبضہ کرکے اقتدار سنبھالا تھا‘ کی طرف سے یہ اقدامات‘ جن میں خواتین پر تعلیم اور روزگار کی پابندی اور اب بیوٹی پارلرز کی بندش بھی شامل ہے‘ ان کی پہلی حکومت کے مائنڈ سیٹ کا تسلسل ہے۔ انٹرویو کے دوران میں نے جنرل صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ نے ملا عمر سے متعدد بار ملاقات کی‘ آپ نے انہیں کیسا پایا‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ: He was a man of very limited vision but very strong conviction۔
افغانستان میں حکمران طالبان کی موجودہ قیادت ملا عمر کے افکار کی سخت پیروکار ہے اور افغانستان کے اندر سے احتجاجی مظاہروں اور بین الاقوامی دبائو کے باوجود کسی صورت بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔ طالبان کی موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے تقریباً 2 برس ہونے کو ہیں‘ مگر اس عرصے کے دوران ملک میں بنیادی انسانی خصوصاً بچیوں اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کے ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ طالبان انتظامیہ کسی آئینی یا قانونی فریم ورک کے بجائے فردِ واحد مولوی ہبۃ اللہ اخونزادہ کی مطلق العنان طرزِ حکومت کے تحت کام کر رہی ہے۔ یہ بھی ملا عمر کی قائم کردہ طرزِ حکومت کا تسلسل ہے جس کے دوران کسی آئین یا قانون کی حکمرانی کے بجائے امیر کے حکم پر عمل کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے پہلے یعنی سابق صدر اشرف غنی کے دور کے پولیس اور فوجی جوانوں اور افسروں کیساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ بین الاقوامی قانونی اور انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کو شکایت ہے کہ طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے مخالفین‘ جن میں زیادہ تر سابقہ حکومت سے تعلق رکھنے والے ملازمین تھے‘ کو دبانے کیلئے غیرضروری طاقت کا استعمال کیا ہے۔
بین الاقوامی برادری اور تنظیموں کی طرف سے سب سے زیادہ تشویش طالبان انتظامیہ کی خواتین کے بارے میں پالیسی پر ظاہر کی جاتی ہے۔ طالبان نے پرائمری سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک‘ جن میں پاکستان سمیت افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں‘ کے احتجاج اور اپیلوں کے باوجود طالبان نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی نہیں کی۔ کسی کام سے یا کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے خواتین گھروں سے باہر نہیں جا سکتیں‘ ان کے ساتھ گھر کے کسی مرد رکن کا ہونا ضروری ہے۔ وہ تمام محکمے یا دفاتر جہاں مرد بھی کام کرتے ہوں‘ خواتین کے لیے ان کے دروازے بند ہیں۔ پچھلے دنوں امیر اماراتِ اسلامی افغانستان مولوی ہبۃ اللہ نے حکم جاری کیا تھا جس کے تحت افغانستان میں سرگرم اقوامِ متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی فلاحی تنظیموں کے دفاتر میں افغان خواتین ملازمت نہیں کر سکتیں۔ اس حکم پر عمل درآمد سے سینکڑوں افغان خواتین‘ جو ان اداروں میں ملازمت اختیار کرکے اپنے گھروں یا بچوں کا پیٹ پالتی تھیں‘ بے روزگار ہو گئیں۔
طالبان کی اس پالیسی اور اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے اس سال مئی میں قطر میں اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں امریکہ‘ چین اور روس کے علاوہ یورپی یونین اور افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے 25ممالک کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔ دو روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں تاہم افغانستان کو دعوت نہیں دی گئی تھی‘ مگر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں طالبان پر ملک میں خواتین پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ کانفرنس سے پہلے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے تمام 15 ارکان‘ جن میں پانچ مستقل ممبران بھی شامل ہیں‘ نے متفقہ طور پر خواتین کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی طالبان پالیسی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ طالبان کی طرف سے ملک کے اندر نہ صرف خواتین بلکہ مذہبی اور لسانی اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کے بارے میں اسی ناروا سلوک کا نتیجہ ہے کہ طالبان انتظامیہ کو تقریباً دو سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی ملک اسے افغانستان کی جائز اور نمائندہ حکومت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر شکایت کو طالبان اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ طالبان کی موجودہ انتظامیہ نے یہ رویہ بھی ملا عمر کی تقلید میں اختیار کیا ہے جنہوں نے اقوامِ متحدہ اور پوری عالمی برادری کی اپیل کو نظر انداز کرتے ہوئے 2001ء میں بامیان میں مہاتما بدھ کے چودہ سو سال پرانے مجسمے کو توڑنے سے باز رہنے سے انکار کر دیا تھا‘ لیکن افغانستان کے ارد گرد کے ممالک میں خواتین میں تیزی سے پیدا ہونے والی سماجی‘ سیاسی اور معاشی بیداری کی موجودگی میں طالبان انتظامیہ اپنی اس پالیسی پر مُصر کتنے عرصہ کیلئے اقتدار میں رہ سکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں