"DRA" (space) message & send to 7575

آئندہ انتخابات: غیریقینی کیوں؟

آج پاکستان کے سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ بحث اس بات پر کی جا رہی ہے کہ قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد عام انتخابات وقت پر منعقد ہوں گے یا نہیں؟ ان اسمبلیوں کی آئینی مدت 12اور 13اگست کو پوری ہو رہی ہے۔ یہ اسمبلیاں اگر اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوتی ہیں تو آئین کے تحت 60دن کے اندر قومی انتخابات ہونا لازمی ہیں‘ اور اگر انہیں ان کی مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کیا جاتا ہے تو 90دن کے اندر انتخابات کرانا پڑیں گے۔ چند روز پیشتر وزیراعظم شہباز شریف نے بڑے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد وہ حکومت چھوڑ دیں گے اور ایک نگران سیٹ اَپ معرضِ وجود میں آئے گا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ آئندہ انتخابات آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ہوں گے‘ تاہم انہوں نے اشارہ دیا کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی تحلیل کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مسلم لیگ (ن) ہمیشہ وقت پر انتخابات کی حامی رہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ برس اپریل میں سابق وزیراعظم کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر اپنی پارٹی کے موقف کا حوالہ دیا جس کے تحت مسلم لیگ (ن) تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور سابق حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کی تشکیل کے حق میں نہیں تھی‘ بلکہ فوری انتخابات چاہتی تھی‘ مگر پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے اصرار پر حکومت بنانا پڑی۔
پی ڈی ایم کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی انتخابات کا اعلان کر رکھا ہے‘ مگر اس کے باوجود آئندہ انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں اور متعدد حلقوں کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شکوک و شبہات اور غیر یقینی کا اظہار کرنے والے حلقوں میں سب سے نمایاں سابق حکمران پارٹی پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین ہیں‘ جنہیں آئندہ انتخابات کے بارے میں نہ صرف شکوک و شبہات ہیں بلکہ انہیں یقین ہے کہ موجودہ حکمران سیٹ اَپ وقت پر انتخابات کے حق میں نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ ان کی جماعت کے مقابلے میں بری طرح ہار جائیں گے۔ انتخابات کے سلسلے میں حکومت کے ارادوں کے بارے انہیں کس قدر شک اور تحفظات ہیں‘ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی انہوں نے آئی ایم ایف سے انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کا مطالبہ کیا۔ آئی ایم ایف نے یہ یقین دہانی کرانے سے معذرت کی تھی کیونکہ ایک بین الاقوامی ادارے کی حیثیت سے یہ ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔
یہ بھی قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ زمان پارک لاہور میں سابق وزیراعظم کے گھر آئی ایم ایف کے وفد کی آمد اور حکومتِ پاکستان کے ساتھ آئندہ 9 ماہ کیلئے 3ارب ڈالر مالیت کے قرض کے ایک معاہدے پر پی ٹی آئی کی حمایت کی درخواست ظاہر کرتی ہے کہ بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تشویش پائی جاتی ہے‘ خصوصاً آئندہ انتخابات کے بارے میں ان حلقوں میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔ ان خدشات کو مزید تقویت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کے ان بیانات سے ملی ہے جو انہوں نے 10جولائی کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد اور اس سے قبل دبئی میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی مشاورت پر دیے۔ دبئی میں ہونے والی اس مشاورت کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اس میں ملکی صورتحال پر بحث کی گئی اور بعض امور‘ جن میں آئندہ انتخابات کا انعقاد بھی شامل ہے‘ پر اہم فیصلے کیے گئے ہیں‘ اور اس پر مولانا نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اس مشاورت سے محض اس لیے باہر رکھا گیا کہ ان کی پارٹی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع اور انتخابات کو ان کی آئینی مدت سے آگے موخر کرنے کے خلاف ہے جبکہ پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتیں اور مسلم لیگ (ن) کا بھی ایک دھڑا ان انتخابات کے انعقاد کو موخر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اپنے اس نقطۂ نظر کو مزید واضح کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم پر بروقت انتخابات منعقد کرانے پر زور دیا ہے اور اگر یہ موخر ہوئے تو پی ڈی ایم کو سیاسی نقصان ہو گا۔
شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اور پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد اقتدار سنبھالنے کے حق میں نہیں تھی‘ بلکہ فوری انتخابات چاہتی تھی‘ لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کے اصرار پر پی ڈی ایم کو حکومت کا بار اٹھانا پڑا‘ جو کہ مولانا کے نزدیک ایک ''سیاسی غلطی‘‘ تھی۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے مولانا فضل الرحمن کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دبئی میں کوئی ''مشاورت‘‘ نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی اہم ایشو پر کوئی سمجھوتا ہوا ہے۔ آئندہ انتخابات کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) شروع سے ہی انتخابات چاہتی تھی اور اب بھی اسمبلیوں کی آئینی مدت کے ختم ہونے کے بعد آئین کے مطابق انتخابات کے حق میں ہے۔
ان واضح اور دوٹوک بیانات کے باوجود ملک میں آئندہ انتخابات کے بارے میں غیریقینی پر مبنی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ پہلی‘ اسمبلیوں کی تحلیل اور نگران حکومت کے قیام میں چند ماہ رہ گئے ہیں مگر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے انتخابی معرکوں میں حصہ لینے کیلئے مخصوص اور ضروری تیاریوں کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ حکومت‘ خصوصاً مخلوط حکومت میں شامل سب سے بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چند ذمہ دار سینئر رہنما‘ جن میں بعض وفاقی حکومت کا حصہ بھی ہیں‘ کے بعض بیانات واضح اور دوٹوک نہیں بلکہ ایشو کو مزید مبہم بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما اب بھی زمینی حقائق کو اپنی انتخابی کامیابی کیلئے موزوں نہیں سمجھتے۔
اسی دوران آصف علی زرداری کا یہ بیان بھی آیا کہ ''انتخابات اس وقت ہوں گے جب میں چاہوں گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے‘ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ حکومت بڑی آسانی سے یہ کہہ کر اس ضمن میں اپنی ذمہ داری سے پہلو بچا سکتی ہے کہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا اور ان کے انعقاد میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنا بالترتیب الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا کام ہے‘ مگر سابقہ تجربات اور زمینی حقائق کی روشنی میں ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرنے کا اختیار کہیں اور ہے۔ اس لیے ملک میں آئندہ انتخابات کے بارے میں نہ صرف ضروری تیاریاں مفقود ہیں بلکہ بے یقینی کی فضا بھی چھائی ہوئی ہے۔ بہت سے حلقے‘ جن میں حکمران اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیاں اور افراد بھی شامل ہیں‘ حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس تذبذب اور غیریقینی کی صورتحال کو ختم کرکے آئندہ انتخابات پر دوٹوک اور غیر مبہم موقف اختیار کرے کیونکہ غیریقینی کی صورتحال کے جاری رہنے سے نہ صرف ملک کا نقصان ہو گا بلکہ حکومت کو بھی اس گومگو پر مبنی پالیسی کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں