"DRA" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش میں سیاسی ہلچل

بنگلہ دیش میں وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف اپوزیشن‘ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی طرف سے چند دنوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں حزبِ اختلاف میں سب سے بڑی پارٹی کے مظاہرین بنگلہ دیش عوامی لیگ (BAL)کی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد سے استعفے اور ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت نئے پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں پچھلے انتخابات دسمبر 2018ء میں منعقد ہوئے تھے اور آئندہ انتخابات جنوری 2024ء میں ہونے والے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں عوامی لیگ نے ملک کی پارلیمنٹ کی 300نشستوں پر انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی اور خواتین کے لیے 50 مخصوص نشستوں کو ملا کر 350 نشستوں میں سے 271عوامی لیگ کے قبضے میں ہیں۔ اس طرح تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر بھی عوامی لیگ کی حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد سے ہٹا نہیں سکتیں۔ اس لیے بڑی اپوزیشن پارٹی بی این پی نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے کے نتیجے میں سیاسی مخالفین کو جیل میں بند کرنے اور میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے واقعات کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد اس کا ساتھ دے گی‘ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ اپوزیشن کے ان مظاہروں سے وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اپوزیشن بی این پی گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی دبائو اور انتشار کا شکار ہے۔ اس پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا کرپشن کے الزامات کے تحت 2018ء سے زیرِ حراست ہیں۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے بی این پی نے عوامی لیگ کو جو واک اوور دیا تھا‘ بی این پی کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ اپنی اس غلطی کا احساس کرکے بی این پی نے 2018ء میں پیشکش کی تھی کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے‘ بشرطیکہ وزیراعظم حسینہ واجد 2014ء کی پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے نئے انتخابات کروائے۔ یہ انتخابات حسینہ واجد کی پارٹی نے بھاری اکثریت سے جیت لیے تھے‘ لیکن بی این پی نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے اپنے امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے اور جعلی ووٹ ڈالنے کے طریقے استعمال کیے ہیں‘ مگر گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت بغیر کسی بڑے چیلنج کے قائم چلی آ رہی ہے۔ بی این پی کی طرف سے شروع کی جانے والی احتجاجی تحریک کے بارے میں تحفظات کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جن حلقوں کی طرف سے بی این پی کو جو غیراعلانیہ حمایت فوج اور بیوروکریسی کی طرف سے حاصل تھی‘ اب وہ میسر نہیں رہی اور وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کو نہ صرف بیوروکریسی بلکہ فوج پر بھی مکمل کنٹرول اور اس کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
تیسری اور غالباً سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش نے سماجی اور معاشی شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ وزیراعظم حسینہ واجد 2009ء سے برسرِ اقتدار ہیں۔ اس عرصے کے دوران بنگلہ دیش کی قومی دولت (جی ڈی پی) میں اضافے کی سالانہ شرح اوسطاً 6فیصد رہی ہے۔ سماجی شعبے میں تعلیم اور صحت میں 2009ء سے اب تک عوامی لیگ حکومت کی کارکردگی جنوبی ایشیا میں سب سے بہتر‘ بھارت سے بھی آگے‘ رہی ہے۔ مثلاً اس وقت پیدا ہونے کے چند سال کے اندر بچوں کی اموات کی شرح 25فی ہزار ہے جبکہ یہی شرح 2005ء میں 50 فی ہزار تھی۔ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں شاید واحد ملک ہے جس کا کوئی بچہ پرائمری سکول جانے سے محروم نہیں ہے۔ یعنی بنگلہ دیش میں یونیورسل پرائمری انرولمنٹ حاصل کر لی گئی ہے۔ وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے ملک میں انفراسٹرکچر کی طرف خصوصی توجہ دی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2005ء میں پکی سڑکوں کی لمبائی 50 ہزار کلو میٹر تھی جو 2021ء میں بڑھ کر 90 ہزار کلو میٹر ہو گئی تھی۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران میں بنگلہ دیش میں ہوائی اڈوں کی تعداد 5سے بڑھ کر 10ہو گئی ہے۔بجلی کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 2005ء میں 50 فیصد تھی مگر 2021ء میں یہ شرح بنگلہ دیش کی کل آبادی کے 90فیصد حصے تک پہنچ چکی تھی۔
سماجی اور معاشی شعبے میں اس ترقی کے باعث بنگلہ دیش کی قومی آمدنی‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران برآمدات 15 بلین ڈالر سے بڑھ کر 40 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس کارکردگی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں غربت میں بھی کمی ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 1990ء کی دہائی میں بنگلہ دیش میں غربت کی سطح 60 فیصد‘ 2005ء میں 40 فیصد اور 2021ء میں 25 فیصد ہو گئی تھی۔ لیکن سیاست میں استحکام اور پائیداری کے لیے صرف سماجی اور معاشی ترقی اور قومی دولت میں اضافہ ہی اہم نہیں ہوتا۔ ان شعبوں میں ترقی سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ حکومت کا عوام‘ خصوصاً اختلافِ رائے رکھنے والوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ بنگلہ دیش میں قابلِ قدر ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے شعبوں میں قابلِ ستائش ترقی کے باوجود وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف اگر عوامی سطح پر بے چینی پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ اس سخت گیر پالیسی کی وجہ سے میڈیا میں وزیراعظم حسینہ واجد کے خلاف سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح حزبِ اختلاف‘ جو اپنی غلطیوں کی وجہ سے سیاسی طور پر پہلے ہی کمزور ہے‘ کے لیے وزیراعظم حسینہ واجد کا رویہ عدم برداشت پر مبنی ہے۔
اپوزیشن حلقوں کو شکایت ہے کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے نہ صرف پولیس کا بے دریغ استعمال کرتی ہے بلکہ عوامی لیگ کے کارکنوں کو بھی مخالف سیاسی دھڑوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ 1971ء کی خانہ جنگی میں جن عناصر نے عوامی لیگ کی علیحدگی پسند تحریک کا ساتھ نہیں دیا تھا‘ ان کے خلاف غداری کے الزام میں کارروائیاں اب تک جاری ہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے بنگلہ دیش کو سیکولرازم کی راہ پر چلائے رکھا اور انتہا پسند‘ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر اقدامات بھی کیے مگر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بنگلہ دیش کی سول سوسائٹی کے حلقوں میں وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف یہ شکایت عام پائی جاتی ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے بجائے آمریت قائم ہے۔ انسانی حقوق مثلاً آزادیٔ اظہار پر پابندی عام ہے۔ میڈیا میں تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ یعنی 2018ء کے انتخابات میں نہ صرف اپوزیشن نے وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا بلکہ بین الاقوامی حلقوں اور فارن الیکشن آبزرورز نے بھی 2018ء کے انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا مگر اس کے باوجود اپوزیشن کی موجودہ احتجاجی تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اپوزیشن کے پاس بہتر حکومت اور مسائل کے حل کا کوئی متبادل فارمولا نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت اپنے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر عوام میں زیادہ مقبول ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں