حکومت نے رواں برس بھارت کی میزبانی میں ہونے والے ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز میں قومی کرکٹ ٹیم کو شرکت کی اجازت دے دی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں بھارت میں پاکستانی ٹیم کی سکیورٹی پر تحفظات ہیں جن سے انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن (آئی سی سی) کے علاوہ بھارت کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کا ورلڈ کپ 2023ء کے میچز میں بھارت جا کر شرکت کرنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ پاکستان میں اس پر ایک رائے نہیں تھی‘ اس لیے حکومت نے تنقید سے بچنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی۔ اس کمیٹی کی اکثریتی رائے کے نتیجے میں حکومت نے ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دے دی ہے۔
اس اعلان کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے یہ بیان بھی جاری کیا کہ پاکستان نے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کو اس لیے بھارت بھیجنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے کہ پاکستان سیاست اور کرکٹ (کھیل) کو الگ الگ سمجھتا ہے۔ یہ بیان اس حد تک تو درست ہے کہ سیاست اور کھیل دو الگ الگ شعبے ہیں‘ دونوں کی ڈومین جدا ہے اور دونوں کے اصول و قواعد ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں یا دونوں میں سے کسی ایک کا دوسرے پر اثر نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں دونوں میں قریبی تعلق ہے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر ثقافتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں اور ثقافتی مفاہمت قوموں کے درمیان تعلقات کو سب سے زیادہ مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس اصول کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بھی تسلیم کیا گیا ہے جس میں قوموں کے درمیان انسانی معاملات اور ثقافت کے شعبے میں مفاہمت کے فروغ کو اقوامِ متحدہ کے قیام کا دوسرا اہم مقصد قرار دیا گیا ہے۔
کرکٹ بھی ثقافت کی ایک شکل ہے۔ اس لیے اسے فزیکل کلچر کہا جاتا ہے جس کو فروغ دینے سے بین الاقوامی مفاہمت اور عالمی امن مضبوط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قومیں اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لیے رابطے کی طرف بڑھنا چاہتی ہیں تو عموماً پہلا قدم کھیلوں کے میدان سے شروع ہوتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین اور امریکہ کے درمیان 23برس تک انتہائی معاندانہ اور کشیدہ تعلقات رہے مگر 1972ء میں صدر نکسن کے دورۂ بیجنگ کے موقع پر دونوں ملکوں کے تعلقات کو نارمل سطح پر لانے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا گیا‘ لیکن اس عمل کا آغاز 1968ء میں امریکہ کی ٹیبل ٹینس ٹیم کے دورۂ چین (پنگ پانگ ڈپلومیسی) سے شروع ہو چکا تھا۔ بعض مواقع پر سپورٹس کو مخالف ملکوں کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سال 1979ء کے آخری دنوں میں سابقہ سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی افواج داخل کی تھیں۔ اس پر امریکہ نے پوری دنیا کو سوویت یونین کے خلاف موبلائز کیا اور اس مہم کے دوران 1980ء کے ماسکو اولمپکس کھیلوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔
خود پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں سپورٹس (کرکٹ) نے متعدد مواقع پر مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اس ضمن میں ضیاالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی اور 2011ء میں موہالی میچ میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی شرکت کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ 1999ء کے بعد پاک بھارت کے تعلقات میں ایک جمود آ چکا تھا۔ علاقائی اور عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات نے اس جمود کو توڑنے کی سخت ضرورت پیدا کر دی تھی اور اس ضرورت کو دونوں ملکوں میں محسوس کیا جا رہا تھا۔ بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپریل2003 ء میں سری نگر میں ایک تقریر کی جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے باہمی روابط کو از سر نو بحال کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس وقت ظفراللہ جمالی پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم کی اپیل کا فوراً مثبت جواب دیا اور پیشکش کی کہ اس عمل کا آغاز کھیلوں‘ ثقافت اور عوامی رابطوں کے شعبوں میں تعاون سے کیا جائے۔ اس اقدام کی بنیاد پر نومبر 2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا وہ تاریخی معاہدہ ہوا جو گاہے گاہے خلاف ورزیوں کے باوجود آج بھی پاکستان اور بھارت کی طرف سے نہ صرف آپس میں بلکہ پورے خطے میں امن کی خواہش کا مظہر ہے۔
موہالی کرکٹ میچ کو دیکھنے کے لیے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی طرف سے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو دعوت (بھارتی وزیراعظم نے صدر آصف علی زرداری کو بھی دعوت دی تھی مگر اسے قبول وزیراعظم گیلانی نے کیا تھا) نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان 2004ء میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ جس میں دیگر دو طرفہ تنازعات کے علاوہ کشمیر پر بھی بات چیت شامل تھی‘ 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے تعطل کا شکار چلا آ رہا تھا۔ اس کامیابی کی پشت پر موہالی کے کرکٹ میچ پر بھارتی وزیراعظم کی طرف سے ان کے پاکستانی ہم منصب کو دعوت تھی کیونکہ اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے سائیڈ لائن پر وفود کے ساتھ غیر رسمی بات چیت بھی کی تھی جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے باہمی کشیدگی کم کرنے اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم کی اس دعوت کو بھارتی میڈیا نے ''امن کا چھکا‘‘ قرار دیا تھا اور موہالی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس موقع پر پاکستانی ٹیم اور مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا تھا اور سرحد کے دونوں طرف اس میچ نے اتنی ہائپ پیدا کر دی تھی کہ کپتان شاہد آفریدی کو اپنی ٹیم کو ہدایت جاری کرنا پڑی کہ وہ اس ہائپ کی لہر میں بہہ جانے کے بجائے اپنے کھیل پر توجہ مرکوز رکھیں۔ خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے استقبال اور حاضرین کی تعداد اور جوش و خروش سے اتنا متاثر ہوئے کہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''موہالی میچ دیکھنے کے بعد اب میری نظریں اس سے بڑی گیم (یعنی پاک بھارت امن) پر ہیں‘‘۔
موہالی سے اسلام آباد روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''اس میچ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلے کم ہوں گے‘‘۔ موہالی میچ میں پاکستان اور بھارت کا مقابلہ دیکھنے کے لیے سرحد کے دونوں اطراف اتنا عوامی جوش و خروش تھا کہ میڈیا نے اسے ماس ہسٹیریا کا نام دیا تھا۔ اگرچہ ایسی صورتحال ورلڈ کپ 2023ء کے میچز میں بھارت جا کر پاکستانی ٹیم کے کھیلنے پر دیکھنے میں نہیں آ رہی مگر میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق احمد پور یا دیگر بھارتی شہروں میں کھیلے جانے والے پاک بھارت میچز کی تمام ٹکٹیں مہینوں پہلے ہی بُک چکی ہیں اور ان شہروں میں تمام ہوٹلز میں رہائشیں 100فیصد تک پُر ہو چکی ہیں۔ اگرچہ دونوں ملک گزشتہ 75برسوں میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور 2019ء سے دونوں میں تعلقات جمود کا شکار ہیں مگر دو ممالک میں ملاپ پر خواہ وہ کھیل کے میدان میں ہی کیوں نہ ہو‘ ایسی عوامی دلچسپی اور جوش و خروش کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کھیل بھی سفارت کاری کی ایک شکل ہیں اور بعض اوقات روایتی سفارت کاری سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے امن کی خاطر دونوں ملکوں میں کھیلوں اور ثقافت کے دیگر شعبوں میں پاک بھارت تعاون کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔