سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خیال میں ملک کے اگلے وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے جبکہ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تہیہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کے اگلے وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں۔ لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے ''ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 پر محفوظ فیصلہ آنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ اب نواز شریف ملک کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف اپنی نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل یا نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کر سکتے۔اس طرح اب میدان میں رہ گئے ہیں دو امیدوار‘ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری۔ ان دونوں میں سے اول الذکر کے کامیاب ہونے کے امکانات اس لئے زیادہ ہیں کہ گزشتہ 16 ماہ کے تجربے سے شہباز شریف سے مقتدرہ مطمئن دکھائی دیتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد یا اس سے چند روز قبل شہباز شریف‘ جو اُس وقت قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف تھے‘ نے کہا تھا کہ 2018ء سے 2020ء تک کے عرصے کے دوران میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو مقتدرہ کی طرف سے جو مدد ملی اس سے اگر آدھی بھی انہیں مل جاتی تو وہ پاکستان کو ترقی کی بلند منزلوں تک لے جاتے‘ مگر اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل انہوں نے جو بیانات دیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملنے والی سپورٹ سے اب مطمئن ہیں اور اس کا انہوں نے ایک سے زیادہ مواقع پر ذکر بھی کیا ہے اور مقتدرہ کے کردار کو خاص طور پر سراہا ہے۔ ایک انٹرویو میں شہباز شریف نے یہ اعتراف بھی کیا کہ گزشتہ 16 ماہ کے دوران میں فوج کی مدد کے بغیر ان کیلئے حکومت چلانا مشکل تھا‘ حالانکہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو جنرل باجوہ پر انحصار کرنے پر کئی دفعہ تنقید کا نشانہ بھی بنا چکے ہیں۔
بہرکیف پاکستانی سیاست کی یہ ایک حقیقت ہے جس سے نہ صرف شہباز شریف بلکہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب کو سمجھوتہ کرنا پڑا۔ البتہ مقتدرہ کی آنکھ کا تارا (Blue eyed boy) ہونے پر اگر کسی نے فخر کیا ہے تو وہ شہباز شریف ہیں یا عمران خان۔ 2022ء سے قبل عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما فخر سے کہا کرتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور مقتدرہ نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ پہلے کسی سویلین حکومت اور مقتدرہ کے درمیان اتنی قربت نہیں رہی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فخریہ بیان کیا کہ وہ گزشتہ 30 برس سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہے ہیں۔ اس کی تصدیق سابق وزیر اعظم عمران خان بھی کر چکے ہیں کہ قمر جاوید باجوہ شہباز شریف سے بہت متاثر تھے۔ حالات و واقعات بھی اس دعوے کے حق میں گواہی دیتے ہیں۔ 2017 ء میں اگر نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہو جاتے تو ان کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم قبول کرنا کسی کے لیے مشکل نہ تھا۔
اب بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔ پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں‘ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کی بجائے ایک ایسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما یعنی انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے جس کی سابقہ قومی اسمبلی میں صرف چار نشستیں تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نگران حکومت کے عبوری دور کے دوران میں جو 90 دن سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے‘ مقتدر حلقوں کے نزدیک زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جو قابل ِاعتماد ہو اور قومی معاشی ترقی‘ خصوصاً آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط کے تحت جو سمت متعین کی گئی ہے‘ اسے نہ صرف قائم رکھے بلکہ پیش رفت کو یقینی بنائے۔ چونکہ یہ عمل انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا اس لئے اسے درست سمت میں جاری رکھنا ضروری ہے‘ جس کیلئے وزیر اعظم بھی قابلِ اعتماد ہونا چاہیے۔
اگرچہ شہباز شریف خود اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما جن میں مریم نواز بھی شامل ہیں اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اگلے وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے مگر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ 2017ء میں جن قوتوں نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ اور تاحیات نااہل قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا‘ چھ سال بعد وہ انہیں دوبارہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر متمکن دیکھنے پر راضی ہو جائیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے آرٹیکل (3)184 کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے والی پارلیمنٹ کے ایکٹ کو خلافِ آئین قرار دے کر مسترد کئے جا نے کے بعد بظاہر نواز شریف کی سیاست میں دوبارہ انٹری کا راستہ مسدود ہو گیا ہے اور نہیں لگتا کہ اس میں صرف آنرایبل چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی مرضی شامل ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو سابق صدر اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جتنا مرضی جوڑ توڑ کر لیں اس کے امکانات بنتے بھی نظر نہیں آتے۔ امکان یہی ہے کہ شہباز شریف کے بلیو آئیڈ بوائے ہونے کے دعوے اور زرداری صاحب کی سیاسی جوڑ توڑ میں مہارت کے باوجود اگلا وزیر اعظم نہ تو مسلم لیگ(ن) سے ہو گا اور نہ ہی پیپلز پارٹی سے بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کے نگران وزیر اعظم کی طرح کسی اور غیر معروف پارٹی سے بھی ہو سکتا ہے۔ اگر نگران وزیر اعظم کے عہدے کیلئے مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی کے تجویز کردہ امیدواروں کو رد کیا جا سکتا ہے تو اگلے وزیر اعظم کیلئے بھی ایسے شخص کا انتخاب کیا جا سکتا ہے جو سب کیلئے اسی طرح قابلِ قبول ہو جیسے جناب انوارالحق کاکڑ بطور نگران وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔
مقتدرہ کیلئے گزشتہ 16 ماہ کے دوران میں طے کردہ سیاسی اور معاشی روڈ میپ پر بغیر کسی رکاوٹ یا تاخیر کے عمل درآمد ہی اہم نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کی طرف سے پیش کردہ چیلنجز بھی ایک مسئلہ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے ہٹ کر کسی اور پارٹی یا گروپ سے کاکڑ صاحب کی طرح دیانت دار‘ معاملہ فہم اور تحمل مزاج سیاستدان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اس سے پی ٹی آئی کو '' کرپشن میں سزا یافتہ‘‘ لوگوں کوایک دفعہ پھر قوم پر مسلط کرنے کا الزام عائد کرنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا۔ اس طرح شاہ محمود قریشی کی قیادت میں پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بھی آسانی رہے گی۔