برکس (BRICS) کی جنوبی افریقہ میں ہونے والی حالیہ سربراہی کانفرنس کے چند فیصلے اور اعلانات ایسے ہیں جن پر متعدد حلقوں میں مختلف زاویوں سے بحث جاری ہے۔ سب سے پہلے اس کی رکنیت میں اضافے کا مسئلہ ہے‘ دوسرا اس میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کے علاقائی اور عالمی مضمرات ہیں‘ اور تیسرا برکس کا اپنا مستقبل ہے جس کے بارے میں ایک دوسرے سے متضاد قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایک اور سوال‘ جسے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے میڈیا میں خاص طور پر اٹھایا جا رہا ہے‘ یہ ہے کہ پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک یعنی چین‘ بھارت‘ افغانستان اور ایران میں سے تین یعنی چین‘ بھارت اور ایران برکس کے رکن بن چکے ہیں تو پاکستان کو باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ 2010ء سے برکس پانچ رکن ممالک برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل چلی آ رہی تھی۔ اس کی رکنیت میں اضافہ اس لحاظ سے باعثِ حیرت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دیگر عالمی تنظیمیں بھی ان ارتقائی منازل سے گزر چکی ہیں‘ مثلاً یورپی یونین‘ جس کی ابتدا 1957ء میں چھ ممالک سے ہوئی تھی‘ آج مشرقی اور مغربی یورپ سے تعلق رکھنے والے 27ممالک پر مشتمل ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان نے 1968ء میں چھ ممالک سے آغاز کیا تھا۔ آج اس کے باقاعدہ اراکین کی تعداد ایسٹ تیمور کو شامل کرکے 11بنتی ہے۔ اسی طرح سارک ابتدائی سات اراکین کے بعد آٹھ اور شنگھائی تعاون تنظیم بھی اب پانچ بنیادی اراکین کے بجائے (پاکستان‘ بھارت اور ایران کے اضافے کے بعد) اب آٹھ اراکین پر مشتمل ہے۔
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیموں کی رکنیت میں وسعت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس لیے برکس کی رکنیت میں اضافہ بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن جس بات پر دنیا حیرت زدہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ علاقائی تعاون کی تنظیموں میں اب تک کوئی ایسی تنظیم نہیں گزری جس نے ایک ہی جست میں اپنے بنیادی اراکین پانچ سے بھی زیادہ یعنی چھ نئے اراکین کی شمولیت کی منظوری دی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہی تنظیم جو اگست 2023ء میں اپنے پانچ اراکین کے ساتھ15 ویں سربراہی کانفرنس منعقد کر رہی تھی‘ اگلے سال اپنی سولہویں سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر 11اراکین پر مشتمل ہو گی۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ برکس میں شمولیت کے لیے 40سے زیادہ ممالک نے اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے اور ان میں سے 20سے زائد ملکوں نے رکنیت کے لیے باقاعدہ درخواست دے رکھی تھی۔ ان میں ایران‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات بھی شامل تھے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی تو جوہانسبرگ سربراہی کانفرنس میں بنفسِ نفیس موجود تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برکس میں شامل ہونے والے نئے ممالک میں سے بہت سے پہلے ہی کئی علاقائی تنظیموں کے رکن چلے آ رہے ہیں مثلاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہ صرف عرب لیگ کے رکن ہیں بلکہ خلیج فارس کے عرب ممالک کی تنظیم جی سی سی کے بھی ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عسکری‘ معاشی اور سیاسی لحاظ سے امریکہ کے بہت قریب ہیں۔ امریکہ کے قریبی اور اہم اتحادی ہوتے ہوئے ان دونوں ممالک‘ جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں‘ کو برکس میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور سابقہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ نے عالمی سیاست میں یک طرفہ اقدامات (Unilateralism) کا جو رویہ اپنایا ہے اس کے پیش نظر اس کے قریب ترین اور پرانے اتحادیوں کا بھی امریکہ سے اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ اس کی نمایاں مثال مشرقِ وسطیٰ کی ہے۔ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس خطے کی غالب طاقت چلا آ رہا ہے مگر اسی دوران یہ خطہ چار دفعہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان خون ریز جنگوں اور تباہیوں کا سامنا کر چکا ہے۔ 1979-88ء کی ایران عراق جنگ‘ عراق پر دو حملے (1991ء اور 2003 ء)‘ اور افغانستان کی جنگ (2001-21ء)‘ ان کے علاوہ ہے۔ مختصر یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی گزشتہ 73برس کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس خطے میں امریکہ کی موجودگی اور اثرورسوخ امن‘ استحکام اور ترقی کے بجائے جنگ‘ سیاسی عدم استحکام اور انحطاط پذیری کی نشانی بن چکا ہے جبکہ اس خطے کے عوام خصوصاً تیل کی دولت کی ریل پیل میں جوان ہونے والی نئی نسل کو ایسے پُرسکون‘ محفوظ اور پُرامن ماحول کی ضرورت ہے جہاں وہ سرمایہ کاری‘ تجارت اور کاروبار کے ذریعے نہ صرف اپنی دولت کا تحفظ کر سکیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں سے استفادہ بھی کر سکیں۔ اس کے لیے وہ ایک متبادل کی تلاش میں ہیں۔ یہ متبادل انہیں چین کی شکل میں نظر آ رہا ہے جس کی پالیسیوں کا فوکس اس خطے میں سرمایہ کاری‘ تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون کا فروغ اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے انفراسٹرکچر کی تعمیر ہے۔
افریقہ میں بھی چین کے اثر و رسوخ میں اضافے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین نے افریقی ممالک میں ایسے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ان ممالک کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع میسر آیا ہے بلکہ عام آدمیوں کو جدید سہولتوں مثلاً ٹرانسپورٹ‘ بجلی کی فراہمی سے مستفید ہونے کا موقع ملا ہے۔ چین نے افریقہ کے ملکوں میں ایسے شعبوں میں آسان قسطوں پر قرضے فراہم کر کے سرمایہ کاری کی ہے جنہیں سابقہ نوآبادیاتی طاقتوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا کیونکہ ان شعبوں میں انہیں فوری اور بھاری منافع کی توقع نہیں تھی بلکہ نقصان کا اندیشہ تھا۔ چین نے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر افریقہ کے ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی جن کی ترقی کی بدولت افریقی ممالک کے جی ڈی پی میں اضافہ ہوا‘ ان کی برامدآت بڑھیں اور عالمی معیشت میں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ چار دہائیوں میں وقوع پذیر ہونے والی ان تبدیلیوں کے نتیجے میں چین اور افریقی ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت چین افریقہ کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔
جہاں تک برکس کا تعلق ہے‘ اس کے بنیادی ارکان ایسے ممالک ہیں جو معدنی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور آگے چل کر وہ ترقی یافتہ اور امیر ملکوں کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں‘ مثلاً جنوبی افریقہ جو نہ صرف براعظم افریقہ کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے بلکہ وسیع معدنی اور قدرتی وسائل کا مالک ہونے کی وجہ سے اس کا شمار افریقہ کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے علاوہ چین اور بھارت کی برکس میں پہلے سے موجودگی ایسے ملکوں‘ جنہیں اپنے سرمایے اور مصنوعات کے لیے محفوظ منڈیوں کی ضرورت ہے‘ کو برکس کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اسی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ برکس میں نئے ممالک خصوصاً ایران‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شمولیت سے ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح تعاون کا وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جو امیر اور غریب‘ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر‘ گلوبل نارتھ اور گلوبل سائوتھ کے درمیان بڑھتی ہوئی تفاوت کو ختم کرنے والوں نے آج سے نصف صدی قبل دیکھا تھا۔ برکس میں شمولیت کے خواہاں ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ اس میں چین کی موجودگی ہے۔ جس طرح شنگھائی تعاون تنظیم کی کامیابی کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے اسی طرح چین کی موجودگی برکس کی ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہے کیونکہ برکس کے موجودہ پانچ ممالک کی مجموعی تجارت کا 70.5فیصد حصہ چین کے ساتھ ہے۔ برکس کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے نیو ڈویلپمنٹ بینک قائم کیا گیا ہے جس کا صدر مقام شنگھائی میں ہے‘ جس نے حال ہی میں 33.2بلین ڈالر کے 98ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے۔