امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے مضبوط معاشی قوت ہے۔ اس کی کرنسی دنیا پر راج کرتی ہے اور فی الحال کوئی ملک اس کی اس حیثیت کو چیلنج نہیں کر تا‘ حتیٰ کہ چین‘ جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے‘ بھی عالمی معیشت میں امریکہ کی جگہ نہیں لے سکا۔ چین کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اسی لیے اس کی مدد سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کے جو منصوبے شروع کیے گئے ان کے ایجنڈے میں شامل اہداف کے تعین میں اعتدال اور حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے۔
حال ہی میں جوہانسبرگ میں برکس کی 15ویں اور پچھلے سال بیجنگ میں 14ویں سربراہی کانفرنسوں کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیے جاری کیے گئے ان کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ برکس کا بنیادی مقصد گروپ میں شامل ملکوں کی ترقی کے راستے میں امریکہ کی سرکردگی میں قائم پرانے عالمی نظام کی طرف سے پیدا کردہ رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ یہاں اس بات کو نوٹ کرنا ضروری ہے کہ برکس کے موجودہ رکن ممالک برازیل‘ روس‘ انڈیا اور جنوبی افریقہ ابھرتی ہوئی منڈیوں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان کی سالانہ شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ ریٹ) امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون میں شامل ممالک‘ جن میں امریکہ‘ جاپان اور مغربی یورپ کے ممالک شامل ہیں‘ سے زیادہ چلی آ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ان ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کا عالمی جی ڈی پی کے حصے میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے‘ لیکن 1945ء میں قائم کیے گئے بریٹن ووڈز سسٹم ( Bretton Woods system) کے تحت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پر مشتمل مالیاتی نظام پر اب بھی ان امیر ملکوں خصوصاً امریکہ کا کنٹرول ہے‘ مثلاً برکس کے موجودہ پانچ رکن ممالک کی مجموعی جی ڈی پی کا دنیا کی کل جی ڈی پی میں امریکہ سے زیادہ حصہ ہے لیکن آئی ایم ایف کے ووٹنگ سسٹم میں امریکہ کا کوٹہ برکس کے رکن ممالک کے کوٹے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس طرح اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ چھ نئے ممالک کی شمولیت کے بعد برکس کے 11رکن ممالک کا دنیا کی کل جی ڈی پی میں حصہ جی سیون کے رکن امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی جی ڈی پی سے زیادہ ہو جائے گا‘ لیکن عالمی مالیاتی نظام کے پرانے سٹرکچر کی وجہ سے دنیا کی معیشت اور مارکیٹ پر کنٹرول ان ممالک کا ہی رہے گا۔ اسی لیے برکس کی آج تک ہونے والی تمام اہم کانفرنسوں میں اس کثیرالقومی نظام میں اصلاحات اور تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے 2021ء میں برکس وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جس میں سب سے زیادہ زور اس کثیر القومی سسٹم کے مختلف اداروں میں موجودہ حالات کی روشنی میں اصلاحات اور ان کے فیصلہ سازی کے عمل میں گلوبل ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے ممالک کو زیادہ نمائندگی دینے پر دیا گیا ہے۔ ان اداروں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے علاوہ اقوامِ متحدہ بھی شامل ہے۔
برکس کی ہر سربراہی کانفرنس میں ان اداروں کو پہلے سے زیادہ انکلوسیو (Inclusive)‘ شفاف‘ فعال‘ جمہوری اور مستعد بنانے اور ان میں ترقی پذیر ممالک کو ان کی آبادی اور عالمی تجارت اور جی ڈی پی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنے کے پیش نظر زیادہ نمائندگی دینے کا مطالبہ دہرایا جاتا رہا ہے۔ برکس کے پلیٹ فارم سے آئی ایم ایف کے کوٹہ سسٹم پر نظرثانی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور بیجنگ میں گزشتہ سال چودھویں سربراہی کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے کوٹہ سسٹم کے سولہویں ریویو کو اس سال 15دسمبر تک مکمل کر لیا جائے تاکہ اس ادارے میں برسوں سے چلے آنے والے غیرمنصفانہ کوٹہ سسٹم کو تبدیل کیا جا سکے۔ برکس کا زیادہ تر فوکس تجارت اور اس کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر (ریل‘ روڈ‘ پل‘ ایئرپورٹس اور بندرگاہیں) تعمیر کرنے پر ہے مگر اس کے چارٹر میں بیان کردہ بنیادی مقاصد کے مطابق یہ ایک معاشی ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی تنظیم بھی ہے‘ اس لیے اس کی سرگرمیوں اور فیصلوں کا عالمی سیاسی نظام پر اثر پڑنا ناگزیر ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں طاقت کا محور اب گلوبل نارتھ سے گلوبل ساؤتھ میں شفٹ ہو چکا ہے اور چھ نئے اراکین کی شمولیت سے عالمی توازنِ طاقت کا جھکاؤ مزید گلوبل ساؤتھ کی طرف ہو جائے گا‘ اس لیے کہ اسے چین کی پشت پناہی حاصل ہے‘ جو 857بلین ٹریڈ سرپلس کے ساتھ برکس کے رکن ممالک میں معاشی ترقی اور ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے آسان شرائط پر قرضہ فراہم کر سکتا ہے۔ نیو ڈویلپمنٹ بینک کے قیام اور اس کی طرف سے سینکڑوں بلین ڈالر مالیت کے 100کے قریب منصوبوں کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ چین برکس کے رکن ممالک میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق برکس کی رکنیت میں چھ ممالک کا اضافہ چین کے اصرار پر کیا گیا ہے اور ابھی اس میں گلوبل ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے مزید ممالک شامل ہونے کا امکان ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو اپریل میں ایران اور سعودی عرب کی مصالحت کروانے کے بعد چین کی اس خطے میں یہ دوسری بڑی سفارتی اور سیاسی کامیابی ہے کیونکہ شمولیت اختیار کرنے والے ممالک میں مصر اور ایتھوپیا بھی شامل ہیں‘ جنہیں محض ان کی اہم جغرافیائی لوکیشن کی بنا پر برکس میں شامل کیا گیا ہے۔ مصر‘ جسے اس کے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے نپولین نے دنیا میں سب سے اہم ملک قرار دیا تھا‘ کی شمولیت سے برکس کو بحیرۂ روم اور شمال مغربی افریقہ تک رسائی مل جائے گی۔ ان ممالک پر مشتمل بحیرۂ روم کی مشرقی پٹی نے یورپ کے دفاع اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایتھوپیا نہ صرف آبادی کے لحاظ سے افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے بلکہ شمال مشرقی افریقہ‘ جسے ہارن آف افریقہ بھی کہا جاتا ہے‘ کے ساتھ ملنے والے بحیرۂ احمر (Red Sea) کی ساحلی پٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے برکس کو بحر ہند کے دفاع اور سکیورٹی کی حکمت عملی میں ایک اہم سٹیک ہولڈر کا مقام حاصل ہو جائے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ تیل کی آمدنی سے مالا مال ممالک اب اپنے فاضل سرمائے کو امریکہ اور مغربی یورپ کی منڈیوں کے بجائے جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ممالک میں انویسٹ کریں گے‘ جہاں قدرتی اور معدنی وسائل بے شمار ہیں‘ مگر سرمائے کی کمی کے باعث ان سے استفادہ نہیں کیا جا سکا‘ مگر امریکہ کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ایران کی شمولیت ہے جسے دنیا میں الگ تھلک کرنے کے لیے امریکہ برسوں سے کوشاں ہے۔ امریکہ کو نہ صرف ایران بلکہ روس کے محاذ پر بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ یوکرین کی جنگ کے باعث اس نے ایران کی طرح روس کے خلاف بھی بھاری اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کی معیشت کو مفلوج اور اسے دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی‘ مگر اب ایران اور روس دونوں دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرنے والی علاقائی تنظیم برکس میں موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی توازنِ طاقت میں تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور برکس کی رکنیت میں مزید اضافے سے تبدیلی کا یہ عمل مزید تیز ہو گا۔ اگرچہ امریکہ کی عسکری اور معاشی قوت کو اس سے کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں مگر بیشتر تجزیہ کاروں کی رائے میں برکس کی شکل میں ایک ٹرائی کانٹی نینٹل تنظیم کا پھیلائو امریکہ کے لیے ایک ویک اَپ کال ہے۔