چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے معاشی بحران سے دوچار قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ عنقریب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری ہونے والی ہے۔ وزیراعظم کے بیان کے مطابق سعودی عرب اور یو اے ای سے 25‘ 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع ہے‘ جبکہ جنرل عاصم منیر نے لاہور اور کراچی میں تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کے دوران کہا کہ ان دونوں ممالک سے متوقع سرمایہ کاری 75سے 100ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ آرمی چیف اور نگران وزیراعظم کو امید ہے کہ وسیع پیمانے پر اس سرمایہ کاری سے پاکستان کو نہ صرف موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا کیونکہ مختلف شعبوں مثلاً زراعت‘ کان کنی‘ توانائی‘ لائیو سٹاک اور آئی ٹی میں وسیع قدرتی وسائل کی موجودگی کی وجہ سے اس سرمایہ کاری سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ان بیانات کو پڑھ کر 1953ء کا پاکستان یاد آ جاتا ہے جب خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیراعظم تھے اور ملک شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ قیامِ پاکستان کے صرف چھ سال بعد ملک کو پیش آنیوالا یہ معاشی بحران موجودہ بحران سے بھی زیادہ شدید تھا کیونکہ کوریا میں جنگ بند ہونیکی وجہ سے پاکستان کو پٹ سن کی برآمد سے جو کروڑوں ڈالر زرِ مبادلہ کی صورت میں موصول ہو رہے تھے‘ وہ بند ہو چکے تھے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے ایک مخصوص بجٹ میں تخفیف کی جو سفارش کی‘ سینئر ایڈووکیٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما حامد خان کے بقول انہیں اپنی اس سفارش پر وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے جس کا ذکر وہ اپنی کتاب Constitutional and Political History of Pakistan میں کر چکے ہیں۔ خواجہ ناظم الدین کی سفارش پر عمل کے بجائے گورنر جنرل غلام محمد کی کابینہ کے دو اراکین جنرل ایوب خان جن کے پاس افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف کے عہدے کے علاوہ وزارتِ دفاع کا قلمدان بھی تھا‘ اور میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا جن کا تعلق سول سروس سے تھا اور جو گورنر جنرل غلام محمد کی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے‘ کی کوششوں سے پاکستان نے ''سرد جنگ‘‘ میں امریکہ کا اتحادی بننے اور عرب قوم پرستوں کے خلاف معاہدۂ بغداد میں شمولیت کی شرط پر دفاعی اور معاشی امداد وصول کرنے کو ترجیح دی۔
جو لوگ اُس زمانے کی پاکستانی اور عالمی سیاست سے واقف ہیں‘ خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں بعض سیاسی جماعتوں نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے اس اتحاد کی سخت مخالفت کی تھی کیونکہ ان کے نزدیک یہ اقدام پاکستان کی آزاد اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کے بارے میں قائداعظم کے خیالات کے منافی تھا۔ مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں تو اس اتحاد کے خلاف باقاعدہ ایک قرارداد بھی منظور کی گئی تھی‘ لیکن اس مخالفت کو ختم کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کی گئی کہ امریکہ کے ساتھ اس معاہدے سے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی‘ اس معاہدے سے بعد میں آنے والے برسوں میں عوام کو خوشحالی تو دیکھنے کو نہ ملی البتہ امریکہ کا اتحادی بننے کے پانچ سال کے اندر پاکستان کو اپنے پہلے اور متفقہ دستور سے محروم ہونا پڑا۔ ملک میں غیر جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا اور جن عام انتخابات کا پہلے آئین کے تحت 1957ء میں وعدہ کیا گیا تھا‘ وہ 1970ء میں منعقد ہوئے اور وہ بھی ایوب خان کے خلاف ایک عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد‘ لیکن موجودہ اور 1953ء کے حالات میں بہت فرق ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای اگر پاکستان میں اتنے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری پر راضی ہو جائیں تو یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد امریکہ اور جی سیون کے باقی رکن امیر ممالک بدستور کساد بازاری کا شکار ہیں‘ اور سعودی عرب اور یو اے ای جیسے سرپلس سرمایے کے مالک ممالک کے لیے سرمایہ کاری کے لیے محفوظ اور منافع بخش منڈیاں نہیں رہیں۔ اب یہ ممالک ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ان دونوں ملکوں کے برکس (BRICS) میں شمولیت کے فیصلے کے پیچھے یہی محرک کارفرما ہے کیونکہ برکس ابھرتی ہوئی منڈیوں کے مالک ممالک پر مشتمل تنظیم ہے‘ جن میں برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای انڈیا کی وسیع کنزیومر منڈی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت سے فائدہ اٹھانے کے لیے انڈیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں اور مزید سرمایہ کاری کے بھی خواہاں ہیں۔ اس ضمن میں فروری 2019ء میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ بھارت کے موقع پر بھارت کے مختلف شعبوں مثلاً توانائی‘ ریفائنری‘ پیٹرو کیمیکلز‘ انفراسٹرکچر‘ زراعت‘ معدنیات‘ مینو فیکچرنگ‘ تعلیم اور صحت میں طویل المیعاد بنیادوں پر 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اس وقت بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں سعودی عرب کا 18واں نمبر ہے اور وہ چین کے بعد بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2016ء میں وژن 2030ء کے اعلان کے بعد سعودی عرب نے جن قومی شعبوں میں ترقی اور وسعت لانے کا اعلان کیا تھا‘ ان میں معیشت اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب نے جس طرح تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی پر معاشی انحصار کم کرنے کی ایک سوچی سمجھی پالیسی اپنا رکھی ہے‘ اسی طرح وہ ماضی کے برعکس تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے بھی صرف ایک یا چند ممالک پر انحصار قائم نہیں رکھنا چاہتا بلکہ نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے یہ ایک بہت اہم اور قیمتی موقع ہے لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو ایسا ماحول پیدا کرنا ہو گا جس میں سعودی عرب‘ یو اے ای اور دیگر ممالک اپنے سرمایے کو محفوظ سمجھ سکیں۔ اس کے لیے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ سرحدوں پر بھی ایک ایسا ماحول پیدا کرنا پڑے گا جس میں امن‘ استحکام‘ آزادانہ تجارت اور آنے جانے کی آزادی شامل ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں سعودی عرب اور یو اے ای سے بڑے مشکل مواقع پر مالی امداد حاصل کی تھی۔ ان دونوں ممالک نے پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کیا اور چین کی طرح کبھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی‘ اور نہ کسی قسم کی شرائط عائد کی ہیں لیکن سرمایہ کاری ایک مختلف اور حساس شعبہ ہے کیونکہ اس میں پرائیویٹ سیکٹر بھی ملوث ہوتا ہے‘ جو اپنے سرمایے کے تحفظ اور منافع کے بارے میں سخت حساسیت کا مالک ہوتا ہے‘ اور صرف اسی صورت میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہوتا ہے جب اُسے اپنے سرمایے کے تحفظ کی گارنٹی حاصل ہو۔ کیا پاکستان اس قسم کی گارنٹی دینے کی پوزیشن میں ہے؟
اس وقت پاکستان میں سیاسی غیر یقینی‘ عدم استحکام‘ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی بلکہ مسلح تصادم کی جو صورتحال پائی جاتی ہے‘ اس کے پیش نظر اس سوال کا مثبت جواب دینا مشکل ہے۔ معیشت چونکہ ایک قومی مسئلہ ہے اس لیے اس کو بچانے بلکہ اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے عرب ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کی صورت میں جو موقع نظر آ رہا ہے‘ اس کے لیے پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ پورے خطے میں مصالحت‘ تعاون‘ امن اور استحکام کی فضا قائم کرنی چاہیے۔ تبھی پاکستان میں باہر سے آنے والی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔