گزشتہ برس نومبر میں پارلیمانی انتخابات کے بعد جب 29دسمبر کو چھ سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اسرائیل کی موجودہ مخلوط حکومت نے حلف اٹھایا تو مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ خطے کا امن سخت خطرے میں پڑ چکا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل کی 37ویں حکومت جسے 'یونٹی گورنمنٹ‘ کا نام دیا گیا تھا‘ میں اکثریت ایسی پارٹیوں کی تھی جو انتہا پسند صہیونی نظریات رکھتی ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو‘ جو خود فلسطین کے مسئلہ پر سخت گیر نظریات کا حامل ہے‘ ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔ اس خدشے کو اسرائیلی کابینہ کے رکن اور سکیورٹی منسٹر نے جون 2023ء میں سچ ثابت کر دکھایا جب اس نے انتہا پسند یہودی ساتھیوں کیساتھ مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے اور یہودی طریقے سے عبادت کرنے کے بعد یہ اعلان کرنے کی جسارت کی کہ آج کے بعد یہ مسجد یہودی ریاست اسرائیل کی ملکیت ہو گی اور اسے مسمار کرکے ہیکلِ سلیمانی تعمیر کیا جائے گا۔ فلسطینیوں‘ عربوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے اسرائیل کے اس وزیر کی اس حرکت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور حماس نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس کو اپنے وزیر کی گستاخانہ حرکت کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
اسرائیل کی نئی حکومت نے فلسطینیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات میں اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ارکان نے کھلم کھلا اعلانات کا سلسلہ شروع کر دیا جن میں انہوں نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ جو کہ 1993ء کے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول اور مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے‘ کو اسرائیل میں ضم کرنے کے ارادے کا اعلان کیا‘ اور اپنے ارادوں کی تکمیل میں مغربی کنارے پر نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ جب ان نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے مغربی کنارے پر فلسطینی گھروں کو بلڈوز کیا جانے لگا تو قدرتی طور پر ان میں رہنے والے فلسطینی مردوں‘ عورتوں اور بچوں نے مزاحمت کی۔ اس کے جواب میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے ان پر گولیاں چلائیں اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال اگست تک 200سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ‘جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔
اسرائیلی وزیراعظم‘ جس نے اپنے عہدے کا چھٹی دفعہ کنٹرول سنبھالا ہے‘ نے خود ''دو ریاستی فارمولے‘‘ کے تحت فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کو ایک عرصے سے معطل کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی نئی انتہائی دائیں بازو کی مذہبی کابینہ کی جارحانہ پالیسی اور اقدامات سے نہ صرف مغربی کنارے اور بیت المقدس بلکہ فلسطین کے دوسرے علاقوں مثلاً غزہ میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے‘ اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اسرائیل کے ان جنونی اقدامات کے خلاف فلسطینیوں کی طرف سے ردِ عمل ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں اسرائیل کی طرف سے اہم عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں کامیابی نے اس خدشے کو جلد ثابت کر دیا کیونکہ 2020ء میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بھی معمول پر لانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا‘ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں مسئلہ فلسطین‘ جس کی وجہ سے خطے میں چار تباہ کن جنگیں ہو چکی ہیں‘ اور لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں اور املاک سے محروم ہو کر ہمسایہ عرب ممالک اور دنیا بھر میں بے وطنی کی صورت میں رہنے پر مجبور ہیں‘ کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ فلسطینیوں‘ عربوں یا مسلمانوں کا ہی نہیں پوری بین الاقوامی برادری کا دیرینہ اور پختہ موقف ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین فلسطینیوں کے مفادات کو تسلیم کرکے حل نہیں ہوتا‘ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی نارملائزیشن نہیں آ سکتی اور امن قائم نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی مشرقِ وسطیٰ میں امن اور عرب اسرائیل مفاہمت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ جنگ چھڑنے سے صرف ایک روز قبل مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی اور عرب خواتین نے مشترکہ طور پر ایک جلوس نکالا تھا جس میں ایک دوسرے پر حملوں کو بند کرنے اور امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے متعدد سیاسی حلقے اپنے وزیراعظم اور خصوصاً موجودہ کابینہ میں شامل انتہا پسند یہودی پارٹیوں کی فلسطینیوں کے بارے میں پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں لیکن جس طرح بھارت میں نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت کشمیر کا مسئلہ بزور طاقت حل کرنے پر تُلی ہوئی ہے‘ اسی طرح نیتن یاہو کی انتہا پسند مذہبی جنونی یہودی حکومت پورے فلسطین کو اسرائیل کے زیرِ تسلط لا کر ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں یہودیوں کے علاوہ کسی اور مذہبی گروپ یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کا وجود نہ ہو۔
فلسطین‘ جس میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل کی فضائیہ کی بمباری اور زمینی دستوں کی کارروائی سے750سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 3500سو سے زیادہ شدید زخمی ہیں۔ فلسطینی اس خدشے کا شکار ہیں کہ اسرائیل عرب خصوصاً خلیجی ممالک (یو اے ای‘ بحرین اور سعودی عرب) کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر فلسطینی مسئلے اور فلسطینیوں کو تنہا کرکے مغربی کنارے کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ یہ امر خصوصی طور پر دلچسپ ہے کہ اسرائیل نے عالمِ عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے خلیج فارس کی عرب ریاست یعنی سعودی عرب‘ یو اے ای اور بحرین کے علاوہ قطر اور مسقط و عمان کو چنا ہے۔ عام طور پر اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایران کے خلاف ہمنوا ممالک کی صف بندی اور تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مالا مال ریاستوں کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون سے اسرائیل کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا۔ اسرائیل اپنے قیام سے ہی نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی بیرونی امداد خصوصی طور پر امریکی امداد کا محتاج رہا ہے کیونکہ قدرتی یا معدنی ذخائر کا ملک نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ انتہائی قریبی دفاعی اور معاشی تعلقات اسرائیل کے وجود کے ضمانت رہے ہیں مگر 2008ء کے مالیاتی بحران کے اثرات یعنی کساد بازاری سے امریکی معیشت ابھی تک باہر نہیں نکل سکی ہے اور ان حالات میں اب اس کیلئے اسرائیل‘ جو امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں ہمیشہ پہلے نمبر پر ہوتا تھا‘ کی اس سطح پر مالی امداد جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اسلئے اب وہ امیر عرب ممالک کی منڈیوں کی طرف رجوع کر رہا ہے‘ لیکن ان دو وجوہات کے علاوہ ایک تیسری وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ خلیجی عرب ممالک فلسطینی ڈائیسپوراکے گڑھ چلے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ سے خلیج کے امیر عرب ممالک نہ صرف حماس کیلئے فنڈز کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں بلکہ ان ممالک میں مختلف عہدوں پر موجود فلسطینی ان ممالک کی علاقائی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اسرائیل خلیجی عرب ممالک میں سرایت کرکے فلسطینیوں کو ان کے ایک اہم سورس سے محروم کرنا چاہتا ہے۔اسکے علاوہ خلیج فارس بحر ہند کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں قدم جما کے اسرائیل جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ مشرقی افریقہ کی جیو پولیٹکس میں ایک اہم شراکت کار بننا چاہتا ہے۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے ان عزائم سے آگاہ ہیں اور انہیں ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ماضی میں بھی متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں مگر موجودہ جنگ اسلئے زیادہ اہم ہے کہ یہ اسرائیل کی طرف سے سعودی عرب کیساتھ تعلقات بحال کرنے کے موقع پر چھڑی ہے لیکن فلسطین جیسا دیرینہ مسئلہ حل کیے بغیر عرب اسرائیل مصالحت کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔