کیا بنگلہ دیش بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا شکار ہو رہا ہے؟ ملک میں گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی کال پر عوامی لیگ کی رہنما اور وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہیں‘ دوسری طرف بنگلہ دیش کی سب سے بڑی صنعت ریڈی میڈ گارمنٹس انڈسٹری کی ساڑھے تین ہزار فیکٹریوں میں 40لاکھ ورکرز کی ہڑتال ہے۔ عوامی لیگ کی رہنما حسینہ واجد اور بی این پی کی لیڈر بیگم خالدہ ضیا‘ جو بنگلہ دیش کے ایک سابق صدر ضیاالرحمن کی بیوہ ہیں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی‘ جسے دنیا میں 'بیگمات کی لڑائی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس لیے اس کی کال پر حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف مظاہرے نئی بات نہیں ۔اسی طرح گارمنٹس انڈسٹری میں کام کرنے والے ورکرز‘ جن میں غالب اکثریت عورتوں کی ہے‘ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اپنی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حسینہ واجد کی حکومت کو ان چیلنجز کا ایک ایسے وقت پر سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب بنگلہ دیش گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں حاصل کردہ معاشی ترقی کے ثمرات کو عالمی کساد بازاری اور افراطِ زر کے مضر اثرات سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف چین کے ساتھ نہ صرف معاشی اور تجارتی بلکہ دفاعی شعبوں میں بھی قریبی تعلقات استوار کر رہا ہے۔ اپوزیشن بی این پی اور دو مزید پارٹیوں‘ جماعت اسلامی اور سابق صدر حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی کی مشترکہ کال پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ آئندہ برس جنوری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے جڑا ہوا ہے۔ اپوزیشن کا ڈر ہے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد جو 2009ء سے اپنے عہدے پر فائض ہیں‘ ان انتخابات کو ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہیں اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے اپنے سیاسی مخالفین جن میں اپوزیشن بی این پی کے رہنمائوں اور کارکنان کے علاوہ صحافی اور دانشور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں کو ہراساں کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد نے ون پارٹی آمریت قائم کر رکھی ہے اور اپنی پارٹی اور حکومتی مشینری کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اسلئے بی این پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی کابینہ کے الیکشن سے پہلے مستعفی ہونے اور آئندہ انتخابات ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت کروانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش اس سے قبل 1996ء سے2008 ء تک نگران حکومت کا تجربہ کر چکا ہے لیکن 2011ء میں حسینہ واجد کی حکومت نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر آئین میں 15ویں ترمیم کر کے نگران حکومت کے سلسلے کو ختم کر دیا تھا۔
اپوزیشن کی شکایات صرف نگران حکومت کے قیام تک محدود نہیں ۔ بی این پی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا جن کی اس وقت عمر 76 سال ہو چکی ہے ایک عرصے سے کرپشن کے الزامات میں قید ہیں۔ بنگلہ دیش کی تیسری سب سے بڑی پارٹی‘ جماعت اسلامی پر ملک کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے۔ گزشتہ 14برس سے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے حسینہ واجد کو سیاسی حلقوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی نکتہ چینی اور اختلاف رائے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان پر تحریر و تقریر کی آزادی اور دیگر بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ان کی حکومت کے خلاف اب تک ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے مقابلے میں موجودہ مظاہروں کا سلسلہ سب سے بڑا ہے اور ریاستی قوت کے استعمال کے باوجود حکومت ان مظاہروں پر قابو نہیں پا سکی بلکہ ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند دن پہلے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک لاکھ کے قریب افراد نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی یہ تحریک پُرتشدد ہوتی جا رہی ہے جس میں حکومتی دعوؤں کے مطابق سرکاری املاک اور اعلی عہدیداروں کے دفاتر پر حملہ کیا گیا۔ اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے مطالبات منظور ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔
اپوزیشن کی تحریک کے علاوہ حسینہ واجد کی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ریڈی میڈ گارمنٹس کی 3500 فیکٹریوں میں تقریباً 40 لاکھ ورکرز کی ماہانہ تنخواہوں میں اضافے کیلئے ہڑتالوں کا سلسلہ ہے۔ ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت بنگلہ دیش کیلئے زر مبادلہ کمانے کا سب سے بڑا(85 فیصد) ذریعہ ہے ‘لیکن اس میں کام کرنیوالے ورکرز جن میں غالب اکثریت خواتین کی ہے عرصہ دراز سے متعدد مسائل اور مشکلات کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ ان میں کام کے دوران ہراسمنٹ‘ حفاظتی انتظامات کی کمی اور دیگر سہولیات مثلاً ٹوائلٹ وغیرہ کی ناگفتہ بہ حالت قابلِ ذکر ہے‘ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ اجرتوں میں اضافے کی نہایت سست رفتار ہے۔ اسکے مقابلے میں افراطِ زر اور مہنگائی کی وجہ سے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ورکرز کا مطالبہ ہے کہ وہ موجودہ تنخواہوں میں گزارہ نہیں کر سکتے۔ حکومت نے ان کی تنخواہوں میں 56.5فیصد اضافے کی پیشکش کی ہے مگر ہڑتالی مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ ان کی تنخواہوں میں تین گنا اضافہ کیا جائے جو کہ عالمی سطح پر کساد بازاری اور خام مال کی قیمتوں کے پیش نظر صنعتوں کے مالکان اور سرمایہ کاروں کیلئے تسلیم کرنا ناممکن ہے۔ مطالبات منظور نہ ہونے کی وجہ سے ہڑتالی مزدور تشدد پر اتر آئے ہیں اور اب تک 600کے قریب فیکٹریوں کو تہس نہس کیا جا چکا ہے اور چار کو آگ لگا دی گئی ہے۔
اگر اپوزیشن کی تحریک جاری رہتی ہے اور ریڈی میڈ گارمنٹس کے مزدور اپنے مطالبات میں لچک پیدا نہیں کرتے تو بنگلہ دیش سیاسی عدم استحکام اور معاشی انحطاط کے ایک ایسے چکر میں پھنس جائے گا جس سے جنوبی ایشیا میں جی ڈی پی افزائش میں سب سے زیادہ سالانہ شرح رکھنے والے اس ملک کے عوام کو بہت نقصان ہو گا۔ بعض حلقوں کی رائے میں بنگلہ دیش اور چین کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور بنگلہ دیش کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے گزشتہ چند برسوں میں جو معاہدے ہوئے ہیں بنگلہ دیش کے اندرونی حالات و واقعات کا ان سے گہرا تعلق ہے۔ چین اس وقت بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چین اب تک بنگلہ دیش میں 40 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ یہ سرمایہ کاری زیادہ تر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کی گئی ہے جن میں 1.2 بلین ڈالر کی رقم سے تعمیر ہونے والی ایک بندرگاہ بھی شامل ہے‘ جہاں بنگلہ دیش نے اپنی دو آبدوزیں رکھی ہوئی ہیں جو اس نے 2016ء میں چین سے خریدی تھیں۔
چین اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات (خصوصاً دفاعی شعبے میں) بھارت اور امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہیں کیونکہ بنگلہ دیش خلیج بنگال میں جسے بحر ہند کا مشرقی بازو کہا جاتا ہے جغرافیائی طور پر کمانڈنگ پوزیشن کا مالک ہے۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کر کے انڈو پیسیفک کے نام سے چین کے گرد گھیرا ڈالنے کیلئے جو پلان بنایا بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط اس کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ خلیج بنگال میں ہی بھارت کے جزیرہ انڈیمان اور نیکوبار کے بحری اڈے ہیں اور آبنائے ملاکہ بھی اسکے مشرق میں واقع ہے جہاں سے مشرق وسطیٰ افریقہ اور دیگر ممالک سے چین کی توانائی اور خام اشیا کا 80 فیصد حصہ گزرتا ہے۔ امریکہ‘ جاپان ‘آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل چار طاقتی اتحاد ''کواڈ‘‘ کے تحت ہر سال ''مالابار‘‘ کے نام سے بحری مشقیں بھی خلیج بنگال کے جنوب مشرقی حصے میں منعقد کی جاتی ہیں۔ اسلئے بھارت اور امریکہ دونوں کیلئے بنگلہ دیش میں چینی اثر و رسوخ قابلِ قبول نہیں۔