20دسمبر کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کالعدم بلوچستان نیشنل آرمی کے ایک اہم کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی اور ان کے 70ساتھیوں کے ہتھیار ڈالنے اور قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر سرفراز احمد بنگلزئی نے جو کچھ کہا وہ گلزار امام شنبے کے اُس بیان سے مختلف نہیں تھا جو انہوں نے رواں برس مئی میں اسی نوعیت کی ایک پریس کانفرنس میں دیا تھا کہ ہم نے مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں گمراہ ہو کر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے‘ غلطی کا احساس ہونے کے بعد اب قومی دھارے میں ایک عام اور پُرامن شہری کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ ابھی تک پہاڑوں پر ہیں اور ریاست کے خلاف جنگ کر رہے ہیں وہ بھارت کے ایجنٹ ہیں اور اس سے فنڈنگ وصول کرتے ہیں۔ گلزار امام شنبے کو جب گرفتار کیا گیا ‘اُس نے نہ صرف ریاست کی رِٹ قبول کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ حکومتِ پاکستان سے تعاون کرکے مزید جنگجوؤں کو سرنڈر کرانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ حکومت کی طرف سے گلزار امام شنبے کی گرفتاری پر سکیورٹی حکام کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اورامید ظاہر کی کہ اس کے نتیجے میں صوبے میں امن قائم ہو گا اور ملک کی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔
بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے مجموعی قومی ترقی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ قومی مفاد اور عوام کی فلاح و بہبود کا تقاضا ہے کہ وہاں حالات پُرامن ہوں تاکہ لوگ‘ بالخصوص وہاں کا نوجوان طبقہ قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھرپور حصہ لے‘ مگر متعدد کوششوں کے باوجود صوبے میں حالات مکمل طور پر بہتر نہیں ہو سکے ۔ گلزار امام شنبے اور سرفراز احمد بنگلزئی پہلے جنگجو کمانڈر نہیں جو ہتھیار پھینک کر مرکزی دھارے میں شامل ہوئے ہیں‘ اس سے قبل بھی کئی جنگجو تنظیموں کے کمانڈر اور ان کے ساتھی ہتھیار پھینک کر مرکزی دھارے میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کنفلِکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ10برسوں میں رواں سال خود کش حملوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ سب سے زیادہ حملے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے اور تقریباً 29خود کش حملوں میں آدھے حملوں کا نشانہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ کالعدم علیحدگی پسندتنظیمیں‘ جنہیں ''ناراض بلوچ‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ بلوچستان میں بدامنی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد میدان میں ہے۔ ان علیحدگی پسند تحریکوں کے علاوہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بلوچستان میں کئی ایک احتجاجی تحریکیں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کی بڑی مثال گوادر کی ''حق دو تحریک‘‘ ہے۔ حکومت کے لیے قوم پرست اور علیحدگی پسند بلوچ عناصر کے مقابلے میں ان تحاریک سے پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔بلوچستان کی احتجاجی سیاست میں یہ ایک نیا اور فکر انگیز رجحان ہے کہ کسی بھی مسئلے یا واقعہ کی بنیاد پر حکومت کے خلاف کوئی تحریک چل رہی ہو‘ جس میں بڑی تعداد میں لوگ‘ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں‘ شرکت کرتے ہوں۔ گوادر کو اس ضمن میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اب اس رجحان نے طوالت اختیار کر لی ہے۔ تربت میں ایک نوجوان کی مبینہ طور پر سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہلاکت پر ہونے والے احتجاج میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نومبر کے آخری ہفتے میں اس واقعہ پر احتجاج کرنے کے لیے جب بلوچ یکجہتی کونسل نے احتجاج کی کال دی تو پورے مکران ڈویژن میں کئی دن پہیہ جام ہڑتال رہی۔ اس احتجاج میں عام لوگوں کے علاوہ سینکڑوں سیاسی کارکن‘ انسانی حقوق کے علمبردار‘ تاجر اور دکاندار بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والے نوجوان کے لواحقین کا مطالبہ تھاکہ ذمہ داران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ مظاہرین کے احتجاج پر اگرچہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر اس پر عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔ مظاہرین نے مطالبات نہ مانے جانے پر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ جا کر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ جب یہ مظاہرین کوئٹہ پہنچے تو مقامی افراد بھی دھرنے میں شامل ہو گئے‘ لیکن کوئٹہ میں دھرنے کے بعد بھی مطالبات نہ مانے جانے پر انہوں نے اسلام آباد جا کر دھرنا دینے کا ارادہ کیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے جب ڈیرہ غازی خان سے تونسہ شریف روانہ ہوا تو سڑک کے اطراف سینکڑوں لوگوں نے ان کی حمایت میں آواز بلند کی ۔ اسلام آباد میں بھی ان مظاہرین کا استقبال کرنے والوں میں سیاسی کارکن اور سول سوسائٹی کے لوگ شامل تھے۔ اگرچہ بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے انہیں مٹھی بھر افراد قرار دے کر دشمن کے ایجنڈے پر عمل کرنے کا الزام عائد کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے ایک بے آب و گیاہ خطے‘ تربت سے شروع ہونے والے اس احتجاج نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی جمہوریت پسند اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بالخصوص اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کے شرکا خصوصاً عورتوں اور بچوں کے ساتھ پولیس کے سلوک کے بعد واضح ہو گیا کہ عوام کی بھاری اکثریت اسے نامناسب سمجھتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صوبے میں عوام اور حکومت کے درمیان کتنا فاصلہ پیدا ہو چکا ہے۔ حکومت کے دعوؤں کے باوجود کہ صوبے میں دہشت گردی کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے‘ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تربت کے مظاہروں کے علاوہ گوادر میں پچھلے سال شروع ہونے والی حق دو تحریک بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے جاری ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے چمن میں پاک افغان سرحد پر سرحد پار کرنے والوں کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی پابندیوں کے خلاف بھی دھرنا جاری ہے۔ اس دھرنے میں تاجروں‘ کاروباری لوگوں اور دیگرافراد کے علاوہ سیاسی کارکن اورسول سوسائٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ کچھ دن پیشتر پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ کو اس دھرنے میں شرکت اور اجتماع سے خطاب کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اگر پاک افغان سرحد کے آر پار جانے والے لوگوں پر پابندیوں کو ختم نہ کیا تو وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پختون آبادی والے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کر یں گے۔
حکومت کو سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جائز قانونی اقدام بھی سیاسی احتجاج بن کر ایک تشویشناک صورتحال کا باعث بن جاتا ہے؟ اس کی اگر کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ دہشت گردی‘ تشدد اور امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے اب تک جو حکمت عملی اپنائی وہ ناکام ہو چکی ہے اور حکومت اور عوام ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔