غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت پانچویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران اسرائیل کی طرف سے لگاتار حملوں سے غزہ میں جو تباہی ہوئی ہے‘ اس کا تصور کرنے سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فلسطینی حکام اور بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک غزہ کی 20لاکھ سے زائد آبادی کا 90فیصد حصہ اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکا ہے۔ اب تک ساڑھے 27 ہزار سے زائد فلسطینی‘ جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے‘ شہید ہو چکے ہیں۔ 80فیصد سے زیادہ رہائشی عمارتوں کو اس قدر نقصان پہنچ چکا ہے کہ وہ اب رہائش کے قابل نہیں رہیں۔ غزہ کا مکمل محاصرہ اور باہر سے پانی‘ خوراک‘ ادویات اور دیگر انتہائی اہم ضروریاتِ زندگی کے داخلے پر اسرائیل کی طرف سے مکمل پابندی کی وجہ سے فلسطینی بھوک‘ پیاس اور بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ ایک خوفناک قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ کے کسی حصے میں بھی فلسطینی اسرائیل کے حملوں سے محفوظ نہیں۔ ان حملوں سے بچنے کیلئے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے غزہ کے جنوبی شہروں کا رُخ کیا ہے جن میں سے ایک شہر رفح بھی ہے جہاں پناہ کی تلاش میں سرگرداں فلسطینیوں کی آمد سے شہر کی آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اب اسرائیلی فورسز اس شہر پر چڑھائی کرکے فلسطینیوں کا قتلِ عام کرنا چاہتی ہیں۔ اس خطرے کے پیشِ نظر نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ امریکہ اور فرانس نے بھی اسرائیل کو اس اقدام سے باز رہنے کو کہا ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم نے اس وارننگ کو مسترد کرتے ہوئے اپنی فورسز کو رفح پر آپریشن کیلئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔
اسرائیل کے غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری رکھنے کے اعلان کے بعد نہ صرف عرب ممالک بلکہ اقوام متحدہ‘ امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے بھی غزہ کی لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیلی افواج نے غزہ کے جنوب میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کے خلاف آپریشن کیا تو اس سے نہ صرف پہلے سے تباہ حال فلسطینی مزید بربادی کا شکار ہو جائیں گے بلکہ خطرہ ہے کہ یہ جنگ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اسی خدشے کے پیش نظر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد اسرائیل کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے‘ لیکن اسرائیلی وزیراعظم نے نہ صرف رفح میں فلسطینیوں کے خلاف آپریشن روکنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ حماس کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور اس کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کی تجاویز کو بھی مسترد کردیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی ''مکمل فتح‘‘ اب چند ماہ کی بات ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم مکمل فتح سے تین مقاصد کا حصول مراد لیتے ہیں۔ حماس کی مکمل بیخ کنی‘ یرغمالیوں کی بازیابی اور اسرائیل کی مستقل سکیورٹی کی ضمانت۔ لیکن چار ماہ میں غزہ 28ہزار کے قریب فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد بھی اسرائیل اپنے ریاستی مقاصد کے حصول کے قریب نہیں پہنچ سکا کیونکہ مغربی میڈیا میں شائع ہونیوالی خبروں کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور فلسطینی باشندوں کے قتلِ عام کے بعد حماس کی مقبولیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ حماس کی قید سے رہا ہونے والے ایک اسرائیلی نے ایک بیان میں اسرائیلی وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے یرغمالیوں کی رہائی کا خواب دیکھنا بند کرے کیونکہ اگر جنگ جاری رہی تو اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم غزہ میں جنگ بند کرنے سے باز نہیں آئے گا کیونکہ وہ اپنی کابینہ کے انتہا پسند عناصر کے دبائو میں ہے جو دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ سے فلسطینیوں کے مکمل اخراج کے بعد اپنی عبوری بستیاں قائم کرکے ان دونوں علاقوں کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کے حق میں ہیں‘ حالانکہ 1995ء کے معاہدۂ اوسلو کے تحت خود اسرائیل دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کو فلسطینی ریاست کا حصہ تسلیم کر چکا ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم اور اس کی پارٹی شروع سے ہی ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف رہی ہے۔
انتہا پسند یہودی پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت کی تشکیل کے بعد نیتن یاہو پہلے سے بھی زیادہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ حال ہی میں اس نے کہا ہے کہ اسرائیل دریائے اردن کے مغربی کنارے سے بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل تک پورے علاقے پر سکیورٹی کنٹرول سے دستبردار نہیں ہو گا۔ نیتن یاہو کے اس بیان نے عرب اسرائیل تنازع ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے حل کرنے کا جواز ختم کر دیا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ غزہ میں جنگ جاری رہنے کی صورت میں برآمد ہو گا مگر امریکہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ غزہ تک محدود رہے اور اس کا دائرہ خطے کے دیگر ممالک تک نہ پھیلے‘ لیکن اس جنگ کے پھیلاؤ کا سلسلہ تو شروع ہو چکا ہے۔ اسکی ایک مثال بحیرۂ احمر میں مال بردار جہازوں پر یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے میزائل اور ڈرون حملے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے بحیرۂ احمر میں سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد ایک تہائی رہ گئی ہے جس پر یورپی ممالک کو سخت تشویش ہے۔
دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد 30 لاکھ کے قریب فلسطینی باشندے سالہا سال سے اسرائیلی افواج اور یہودی آباد کاروں کے تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں مگر سات اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے قاتلانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے پر آباد 843فلسطینی اسرائیلی افواج اور یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ غزہ جنگ کو خطے کے دیگر ممالک تک پھیلنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے‘ مگر چین نے امریکی صدر کے اس بیان کو منافقانہ قرار دیا ہے۔ چین کے نزدیک غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی غیر مشروط حمایت اور مدد کے نتیجے میں امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر حصوں کو بھی جنگ اور تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے فرنٹ لائن عرب ممالک میں سے ایک یعنی لبنان غزہ جنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ملنے والی لبنان کی جنوبی سرحد پر اسرائیلی حملوں میں تیزی آ رہی ہے اور حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے 150جنگجو اب تک اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اگر اسرائیلی وزیراعظم کے بیانات کے مطابق غزہ میں فلسطینیوں پر حملے جاری رہتے ہیں اور رفح شہر میں اسرائیلی افواج داخل ہو جاتی ہیں تو مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس سے یہ خطہ ایک دفعہ پھر عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا مرکز بن جائے گا کیونکہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کو چین مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کے منافی سمجھتا ہے اور اس کی طرف سے امریکہ کے خلاف سخت بیانات آنے کی توقع ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ اس مسئلے پر روس چین کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ دونوں ممالک کے مشرقِ وسطیٰ سے اہم تجارتی‘ اقتصادی اور سٹریٹیجک مفادات جڑے ہونے کے علاوہ دونوں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین بھی ہیں۔ اسی لیے دونوں کی طرف سے غزہ کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے مشترکہ اقدامات تجویز کیے جائیں گے بلکہ فلسطینیوں کی بھی مکمل اور کھل کر حمایت کی جائے گی۔ خدشہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ایک دفعہ پھر 1960ء کی دہائی کی سیاست کی طرف نہ لوٹ جائے۔