ملک میں ہونے والے انتخابات میں سے کوئی بھی غیرمتنازع نہیں رہا ‘مگر آٹھ فروری کے انتخابات سب سے زیادہ متنازع نظر آ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے‘ مگر اس بار صاف‘ شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے مطلوب ماحول پیدا ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے راستے میں مختلف سیاسی‘ انتظامی اور قانونی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ سب ایک مخصوص جماعت کی آزادانہ انتخابی سرگرمیوں کو محدود کرنے کیلئے ہو رہا ہے۔ ان حالات میں پولنگ ڈے تک ملک کے بارہویں عام انتخابات پر شبہات کے گئے سائے رہے ‘لیکن بالآخر پولنگ ڈے آن پہنچا۔ ووٹرز کا جذبہ اور جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ موسم کی سختیوں اور دیگر مشکلات جن میں اپنا پولنگ سٹیشن تلاش کرنے کی مشکل سر فہرست تھی‘ کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا اور اس طرح ملک کے آئینی اور جمہوری عمل کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔ انتخابات سے پہلے دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ان کے باوجود ووٹرز نے جس طرح اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا‘ اور پولیس‘ رینجرز اور آرمی کے جوانوں نے چوکس رہ کر ملک بھر میں جس فرض شناسی سے انتخابات کے انعقاد کو پُرامن بنایا‘ وہ قابلِ تحسین اور باعثِ فخر ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی اور ریاستی مشینری کی فرض شناسی اور احساسِ ذمہ داری ثابت ہوتی ہے۔ اب نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ دنیا بھر کی نظریں انتخابات کے بعد کے حالات اور واقعات پر لگی ہوئی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل (2)91 کے مطابق انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ووٹنگ ڈے کے بعد 21ویں دن منعقد ہونا لازمی ہے۔ صدرِ مملکت اگر چاہیں تو اس سے پہلے بھی نئی منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس بلاسکتے ہیں۔ اجلاس بلانے کے بعد قومی اسمبلی کا سب سے پہلا کام سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہے‘ اس کے بعد ہونے والی قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت نئے سپیکر کریں گے۔ قائدِ ایوان یعنی وزیراعظم کا آئین میں دیے گئے طریقے کے مطابق انتخاب ہو گا۔
انتخابات سے قبل ہر جانب سے دلیل پیش کی جا رہی تھی کہ سیاسی استحکام ملکی معیشت کیلئے نے حد ضروری ہے‘ اور یہ صرف انتخابات کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔ اب جبکہ انتخابات ہو چکے ہیں‘ کیا ملک میں غیریقینی کے خاتمے اور سیاسی استحکام کے قیام کے دور کا آغاز ہو جائے گا؟اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں‘ جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے‘ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں اور اگلے 21دن حکومت سازی کیلئے کوششوں میں صرف کریں۔ اگرچہ بعض مقامات سے ہارے ہوئے امیدواروں کی طرف سے نتائج تبدیل کرنے کی شکایات آ رہی ہیں اور نتائج کے اعلان میں غیرمعمولی تاخیر پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں مگر کسی پارٹی‘ بشمول پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے انتخابی نتائج مسترد کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے تحفظات کے باوجود انتخابی نتائج کو فی الحال قبول کر لیا ہے ‘مگر پی ٹی آئی کا معاملہ جدا ہے۔ پارٹی کو اپنا انتخابی نشان چھن جانے سے نہ صرف انتخابی عمل کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ وہ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد‘ باوجود اس کے کہ اس کے حمایت یافتہ امیدوار پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بڑی تعداد میں منتخب ہوئے ہیں‘ نئے مسائل سے دوچار ہو گی۔ ان مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مرکز میں حکومت سازی کی کوشش متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ وہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اس کے اراکین پر دوسری پارٹیوں میں شمولیت کیلئے دباؤ بھی موجود رہے گا۔ اس دباؤ کے تحت پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو کر حکومت سازی کے موقع سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے یہ صورتحال کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو کر دو دن کیلئے بھی حکومت سے باہر رہنے کو تیار نہیں تھے اور گزشتہ تقریباً پونے دو سال میں انہوں نے دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے دن رات کوشش کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مقصد کے حصول کیلئے کون سا راستہ اپناتی ہے۔ احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں‘ لانگ مارچ اور اسمبلی بائیکاٹ اور دھرنوں کو تو خارج از مکان قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پارٹی نے یہ سب آزما کر دیکھ لیا ہے۔ اس سے پارٹی کو فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوا۔ پی ٹی آئی کے سامنے ان مشکلات سے نکلنے کیلئے واحد آپشن اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا رہ گیا ہے۔ اور اگر پی ٹی آئی کو ریلیف مل سکتا ہے تو وہ عدالتوں ہی سے ممکن ہے۔
8فروری کے انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان کی روشنی میں ملک میں ایک مستحکم‘ دیر پا اور مؤثر حکومت کا قیام دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک ایسی پارٹی‘ جسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے‘ کو باہر رکھ کر کوئی حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تو وہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سب سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا ہونے اور مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی دعوت دی مگر ان کی یہ پیش کش مبہم اور نامکمل ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت پی ٹی آئی کیلئے‘ جس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے‘ سب سے اہم مسئلہ اس کے بانی چیئرمین کی مختلف مقدمات میں سزاؤں کے تحت قید اور اس کے سینکڑوں اراکین کے عدالتوں میں مقدمات ہیں۔ پی ٹی آئی سیاسی مصالحت کیلئے سب سے پہلے اس مسئلے پر حمایت کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی اور حکومت سازی کے معاملات پر مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا مگر گزشتہ روز پیپلزپارٹی نے وزارتِ عظمیٰ یا وفاقی وزارتیں لینے کے بجائے آئینی عہدے لینے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کے بعد کی سیاسی صورتحال کو پیچیدہ اور کسی حد تک دلچسپ بنانے میں ایم کیو ایم پاکستان کی بڑی کامیابی بھی شامل ہے۔ پچھلی قومی اسمبلی میں ان کے 7اراکین تھے اور اس کی بنیاد پر ان کا کنگ میکر ہونے کا دعویٰ تھا‘ اب ان کے قومی اسمبلی کے منتخب اراکین کی تعداد 17 ہے۔ اس کے پیش نظر تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ مرکز میں حکومت سازی میں کسی پارٹی کی مدد کے عوض کتنی سخت شرائط منوانے کی کوشش کریں گے۔ یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ اسے مرکز میں حکومت بنانے کیلئے اتحادی جماعتوں کی ضرورت زیادہ ہے۔
پی ٹی آئی نے اپنے اراکین کو آزاد حیثیت میں کامیاب کروا کر پنجاب اور خیبرپختونخوا جو حیران کن کامیابی حاصل کی ہے‘ اس تناظر میں وہ اپنے علاوہ نہ صرف مرکز میں کسی مخلوط حکومت کو قبول نہیں کرے گی بلکہ اسے احتجاجی مظاہروں سے مفلوج کرنے کی کوشش بھی کر سکتی ہے۔ لیکن بانی پی ٹی آئی کے جیل میں رہتے ہوئے کسی بھی احتجاجی تحریک کو لمبے عرصے تک چلانا مشکل ہو گا۔ ماضی کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ اس قسم کی احتجاجی تحریک لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتی۔ اس لیے جن لوگوں نے فروری 2024ء کے انتخابات کے انعقاد سے ملک میں امن‘ استحکام یا سیاسی مصالحت کی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ یقینا مایوس ہوں گے۔ 8فروری کو ہونے والے انتخابات نے پاکستانی قوم اور دنیا کے سامنے ملک کی معروضی حقیقتوں کو جس طرح کھول کر رکھ دیا ہے‘ انہیں نظر انداز کرکے اگر کوئی سکیم نافذ کی گئی تو گزشتہ دو سال سے جاری سیاسی بحران بدستور جاری رہے گا۔