22 جنوری کو مانسہرہ میں اپنی انتخابی مہم کے پہلے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اعلان کیا کہ اگر انتخابات کے بعد اُن کی حکومت قائم ہوئی تو مانسہرہ میں ہوائی اڈا تعمیر کرنے کے علاوہ اس شہر کو ریلوے کے ذریعے کراچی اور موٹروے کے ذریعے بالاکوٹ‘ کاغان‘ ناران‘ چلاس اور بابوسر سے جوڑ ا جائے گا۔ اس کے علاوہ عوام کو سستے پٹرول‘ گیس اور بجلی کی فراہمی کے علاوہ روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔ جلسے میں حاضرین کی تعداد اور جوش و خروش سے معلوم ہوتا تھا کہ نواز شریف اس حلقے سے بڑے مارجن کے ساتھ جیتیں گے‘ جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار شہزادہ محمد گستاسپ خان کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ آٹھ فروری کو صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے پاکستان کے عوام کو اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ آٹھ فروری کو پولنگ کے بعد جب نتیجہ سامنے آیا تو نواز شریف شہزادہ محمد گستاسپ خان سے25ہزار سے زیادہ ووٹوں کے مارجن سے ہار چکے تھے۔یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیانیہ کارکردگی پر چھا گیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو اپنے مخالف خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے مقابلے میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے ‘اس کے پیچھے بھی یہی محرک کار فرما ہے۔
اس خطے کی سیاسی تاریخ میں ایک برتر اور طاقتور بیانیے کی فتح کی یہ پہلی مثال نہیں ہے۔ 1940ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا تو اس مطالبے کی مخالفت کرنے والوں میں آل انڈیا کانگرس کے علاوہ مسلمانوں کی بعض مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں اور تقسیمِ ہند اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے مضمرات پر ان کی طرف سے جن دلائل کا اظہار کیا جاتا تھا ان میں کافی وزن تھا‘ مگر آزادی‘ عزت اور برابری کے ماحول میں زندگی بسر کرنے کے مطالبے نے ان سب دلائل کو رد کر دیا۔ اسی طرح1970 ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے بیانیے کی بنیاد پر مغربی پاکستان کے عوام نے بھاری تعداد میں ووٹ دیے۔حالیہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت عوام کو اپنے گزشتہ ادوار کی کارکردگی سے آگاہ کرتی رہی اور اس کی بنیاد پر عوام کو آئندہ بھی ترقیاتی کام اور ان کی فلاح کے منصوبوں کے آغاز کا یقین دلاتی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تین بڑی قومی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ 15 سال کی حکومتی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو مسلم لیگ (ن) آگے نظر آتی ہے۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا آغاز مشرف حکومت کے آخری برسوں میں ہو چکا تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت (2008-13ء) اس پر قابو نہ پا سکی ۔ اُس دور میں ملک کے شہری علاقوں میں 10 اور دیہی علاقوں میں 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت (2013-18ء) نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کراچی میں پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے ذریعے امن و امان کی صورتحال میں بہتری لا کر تاجر برادری اور کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کیا اور ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرکے عوام کو طویل لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائی۔
2015ء میں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا معاہدہ کرکے پاکستان میں توانائی اور سڑکوں کی تعمیر میں چین کی بھاری سرمایہ کاری کو ممکن بنایا۔ اقتصادی راہداری منصوبے کا پہلا مرحلہ‘ جس میں توانائی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے تعمیر کرکے ملک میں بجلی کی پیداوار اور سڑکوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا تھا‘ مکمل ہو چکا ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے نتیجے میں ملک میں بیروزگاری کم ہوئی اور زرِمبادلہ میں اضافہ ہوا۔ 2018ء میں افراطِ زر کی سطح خاصی کم تھی اور مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں سالانہ اضافے کی شرح چھ فیصد کو چھو رہی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت خصوصاً نواز شریف انتخابی مہم کے دوران اپنی سابقہ کارکردگی کو عوام کے سامنے بڑے فخر سے پیش کرتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اپنے سابقہ ادوار میں ملک کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا اور اگر2017ء میں ان کو اقتدار سے نہ ہٹایا جاتا تو پاکستان معاشی خود کفالت کی منزل پر پہنچ چکا ہوتا۔ انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران ان کا فوکس اس وعدے پر تھا کہ اگر ان کی پارٹی اکثریت کے ساتھ ایک دفعہ پھر برسر اقتدار آئی تو‘ بقول ان کے‘ وہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں انہیں وزارتِ عظمیٰ سے علیحدگی کی وجہ سے ادھورا چھوڑنا پڑا تھا‘ مگر ووٹرز کی بڑی تعداد نے ان کے وعدوں کو نظر انداز کرکے پاکستان تحریک انصاف کے بیانیے کے حق میں اپنی رائے دی ہے۔ ان کا بیانیہ یہ ہے کہ حکومت میں تبدیلی کا حق صرف عوام کو حاصل ہے اور انہیں یہ حق بغیر کسی رکاوٹ اور مداخلت کے استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیانیے کی ملکیت پر خان صاحب کے مقابلے میں نواز شریف کا حق زیادہ ہے کیونکہ 2017ء میں جن الزامات کی بنیاد پر انہیں وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ اور عمر بھر کے لیے سیاست کے لیے نااہل قرار دیا گیا‘ وہ قانونی ماہرین کی نظر میں خاصے کمزور تھے۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے سے ورچوئل خطاب میں نواز شریف نے یہ کہہ کر کہ پاکستان کے ہر منتخب وزیراعظم کو عوامی مینڈیٹ کے مطابق اپنے اختیارات کے استعمال سے روکنے کے لیے راستے میں روڑے اٹکائے گئے‘ 1947ء سے کسی وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا‘ اپنے بیانیے کو تاریخی سیاق و سباق سے ٹھوس بنیاد فراہم کی مگر جیسے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر آصف سعید کرمانی نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف کا ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اُس وقت دفن ہو گیا جب پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) نے قمر جاوید باجوہ صاحب کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حق میں ووٹ دیا۔ رہی سہی کسر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے پوری کر دی جب پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اپریل2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی‘ حالانکہ پارٹی کے سینئر رہنما‘ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور سعد رفیق وغیرہ‘ چند بنیادی اور دیرینہ مسائل کے حل پر قومی اتفاقِ رائے کے بغیر حکومت کی تبدیلی کے حق میں نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف بھی ابتدا میں تحریک عدم اعتماد کے خلاف تھے لیکن جب آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے اصرار پر راضی ہوئے تو ان کی شرط تھی کہ تحریک کی کامیابی کے فوراً بعد چند بنیادی کام کرنے کے بعد عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا‘ مگر ایسا نہ ہو سکا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بیانیہ جس کا اعلان دراصل نواز شریف نے کیا تھا‘ بانی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں چلا گیا اور اسی کی بنیاد پر بانی پی ٹی آئی نے اپریل2022ء سے ملک میں انتخابات کے لیے تحریک چلانا شروع کر دی۔