پاکستان کے آئین کی دفعہ 91 کے تحت پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے بعد‘ 21 دن کے اندر قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کا منعقد ہونا لازم ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزارتِ پارلیمانی امور نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو نگران وزیراعظم کی ایڈوائس پر مشتمل ایک سمری ارسال کر دی تھی لیکن چند دن خاموش رہنے کے بعد صدرِ مملکت نے سمری منظور کرنے کے بجائے واپس وزیراعظم سیکرٹریٹ بھیج دی اور موقف اختیار کیا کہ وہ (صدرِ مملکت) وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق قومی اسمبلی کا سیشن بلانے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ایوان ابھی مکمل نہیں ہے اور سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی میں اقلیتوں اور خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا؛ تاہم سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے آئین کی دفعہ 91 کی روشنی میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر دیا کیونکہ ان کے بقول صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے انکار کیا۔ اس حوالے سے گزشتہ روز سیکرٹری اسمبلی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا اور اسمبلی کا اجلاس آج (29 فروری کو) صبح دس بجے طلب کیا گیا ہے۔
صدرِ مملکت کی طرف سے انکار اور سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے نئی (16ویں) قومی اسمبلی کے پہلے سیشن کے انعقاد کے اعلان نے ملک میں ایک نئی قانونی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر کی رائے میں اسمبلی کے پہلے سیشن کو صرف صدرِ مملکت ہی طلب کر سکتے ہیں اور سپیکر کی طرف سے اسمبلی کا اجلاس بلانا غیر آئینی ہو گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے وابستہ ماہرین قانون کی رائے میں الیکشن کے بعد 21 دن کے اندر اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد آئینی تقاضا ہے اور صدرِ مملکت کی طرف سے انکار قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کو مؤخر نہیں کر سکتا کیونکہ آئینی دفعہ 91 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ الیکشن منعقد ہونے کے 21 دن کے اندر قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوگا۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس اجلاس کو صدرِ مملکت ہی بلا سکتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر صدرِ مملکت انکار کرتے ہیں تو آئین کے کوئی دفعہ متاثر نہیں ہو گی بلکہ اس کے تحت اسمبلی کا اجلاس الیکشن کے 21 روز کے اندر ہو جائے گا۔ اپنے اس موقف کی تائید میں یہ قانونی ماہرین آئین کے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیتے ہیں جس کے تحت صدرِ مملکت اپنے فرائض کی انجام دہی میں کابینہ یعنی وزیراعظم کے مشورے کے پابند ہیں؛ البتہ اس آرٹیکل میں یہ ضرور درج ہے کہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر اختلاف کی صورت میں صدر نظر ثانی کے لیے ایڈوائس واپس وزیراعظم کو بھیج سکتے ہیں لیکن نظر ثانی کے بعد وزیراعظم کی طرف سے بھیجی گئی ایڈوائس پر صدر کو 10 دن کے اندر عمل کرنا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صدر مملکت نے وزیراعظم کی طرف سے بھیجی گئی ایڈوائس پر پہلے کارروائی میں تاخیر کر کے بعد میں وزیراعظم کو نظر ثانی کی ایڈوائس بھیج دی ہو کیونکہ اس سے اسمبلی کا اجلاس تقریباً دو ہفتے تک مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کے لیے آئین میں ایک واضح ہدایت موجود ہے اور اس میں مدت کا تعین بھی کیا گیا ہے اور اجلاس کے انعقاد کو کہیں بھی صدرِ مملکت کی منظوری سے مشروط نہیں کیا گیا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حامی وکلا کی رائے میں صدرِ مملکت کی منظوری کے بغیر بھی اجلاس منعقد کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے‘ اس نظام میں سربراہ مملکت یعنی صدر کے اختیارات محض رسمی اور برائے نام ہیں۔ اصل اختیارات کا مالک وزیراعظم ہوتا ہے کیونکہ وہ براہ راست منتخب نمائندوں پر مشتمل ایوان یعنی قومی اسمبلی کا سربراہ ہوتا ہے‘ مگر ہمارے ملک میں موجودہ پارلیمانی نظام ایک طویل ارتقائی دور کے بعد وجود میں آیا۔ 1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت بھی کہنے کو پاکستان میں پارلیمانی نظام ہی نافذ کیا گیا تھا (1947ء تا 1954ء) مگر یہ ایسا پارلیمانی نظام تھا جس میں نہ صرف اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مکمل اختیار سربراہِ مملکت کے ہاتھ میں تھا بلکہ گورنر جنرل اپنی صوابدید پر وزیراعظم کو برطرف بھی کر سکتا تھا۔ 1953ء میں گورنر جنرل کے ہاتھوں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اور 1954ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل دو ایسی مثالیں ہیں جن سے سبق سیکھتے ہوئے 1956ء کے آئین میں سربراہِ مملکت (صدر) کے اسمبلی کے بارے میں اختیارات کو محدود کر دیا گیا مگر اس کے باوجود سابقہ پارلیمانی آئین کے تحت صدر کو چند شرائط کے ساتھ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور وزیراعظم کی تقرری کرنے کے اختیارات حاصل تھے۔ ان اختیارات کو صدر اسکندر مرزا نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر کے آئے دن حکومتوں کی تبدیلی کے ذریعے ملک کو سیاسی عدم استحکام کی زد پر رکھا۔
1973ء کے ائین کے میں صدر کے بجائے وزیراعظم کو ملک کا چیف ایگزیکٹو اور قومی اسمبلی کو اس کے انتخاب کا اختیار دینے کا مقصد یہی تھا کہ ماضی میں سربراہانِ مملکت جو من مانیاں کرتے آئے تھے‘ ان سے بچا جائے۔ اگرچہ 1973ء کے آئین کے تحت اب بھی ایسے کچھ اختیارات ہیں جو صدر اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور ایسے امور بھی ہیں جن پر فیصلہ کرتے وقت وزیراعظم کے ساتھ صرف مشاورت ہی کافی ہے مگر ان کی تعداد بہت محدود ہے اور آئین میں ان کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ باقی تمام امور‘ جن میں ریاستی اختیارات کا استعمال شامل ہے‘ آرٹیکل48 کے تابع ہیں۔ اگرچہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف ادوار میں بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے وزیراعظم کے اختیارات کو صدر کے ہاتھوں میں دے دیا گیا تھا مگر 2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے منظوری سے پارلیمنٹ‘ وزیراعظم اور کابینہ کے اختیارات کو پارلیمانی نظام کی روح کے مطابق بحال کر دیا گیا۔ البتہ اس کے باوجود صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ زیادہ تر سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے اور اس کے تدارک کے لیے آئینی و پارلیمانی روایات قائم کرنے کی ضرورت ہے جن کے مطابق ریاستی عہدیداروں کا کردار بالکل غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ ہو۔ یہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی جماعتوں‘ خاص طور پر برسر اقتدار پارٹی‘ میں جمہوری اقدار سے روگردانی کی روش ختم ہو کیونکہ صدر سے غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ رویے کی توقع کا مقصد یہی ہے کہ وہ سربراہِ مملکت کی حیثیت سے کسی پارٹی کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے دیں اور ملک میں نفاق‘ تقسیم اور منافرت کی فضا ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر چونکہ صدر ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا امیدوار ہوتا ہے یا اس سیاسی پارٹی کی حمایت سے صدر کے منصب پر فائز ہوتا ہے‘ جو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت بناتی ہے‘ اس لیے ہر صدر پر اپنی پارٹی کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔ پاکستان کی موجودہ آئینی صورتحال اس لحاظ سے منفرد ہے کہ موجودہ صدر سابق حکمران پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے‘ اس لیے ان پر اپنی پارٹی کی طرف مائل ہونے کا الزام زیادہ لگایا جاتا ہے؛ تاہم آئین کی دفعات بالکل واضح ہیں۔ صدر عارف علوی کی سیاسی وفاداریاں اپنی جگہ مگر اس وقت وہ ایک سیاسی نہیں بلکہ آئینی عہدے پر فائز ہیں اور انہیں سیاست سے بالاتر ہو کر ریاست کی مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنے فرائض سرانجام دینا چاہئیں۔