امریکہ کا سیاسی نظام اٹھارہویں صدی عیسوی کے مشہور فرانسیسی مفکر Montesquieu کے نظریے ''اختیارات کی جداگانہ تقسیم‘‘ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا۔ اس نظریے کے مطابق حکومت کے تین اداروں؛ انتظامیہ (صدر) مقننہ (کانگرس) اور عدلیہ کے دائرہ اختیار کو آئین میں علیحدہ علیحدہ متعین کر دیا گیا اور اس کے اندر رہتے ہوئے انہیں اپنے اختیارات کے مکمل استعمال کا حق دیا گیا مگر اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ کوئی ادارہ اپنے اختیارات کے استعمال میں دیگر اداروں کے دائرہ اختیار کی حدود کی خلاف ورزی نہ کرے چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم بھی متعارف کرایا گیا تاکہ حکومت کے تینوں اداروں صدر‘ کانگرس اور سپریم کورٹ کے درمیان اختیارات کی تقسیم متوازن رہے۔ مثلاً خارجہ تعلقات کے شعبے میں تمام اہم فیصلے کرنے کا اختیار صدر کو حاصل ہے مگر آئین کانگرس کو ان فیصلوں کی نگرانی کا بھی اختیار دیتا ہے۔ اس اختیار کو استعمال کرنے کیلئے امریکی کانگرس کے دونوں ایوانوں‘ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے کام کو آسان بنانے کیلئے ہر کمیٹی کی ذیلی کمیٹیاں موجود ہیں جن کے اختیار میں ہر محلے یا علاقے کے بارے میں امور پر بحث کی جاتی ہے۔ اس بحث میں امریکی حکومت کے اہلکاروں کے علاوہ باہر سے بھی ماہرین کو بلایا جاتا ہے تاکہ اُن کی ماہرانہ رائے سے استفادہ کیا جا سکے۔ ان کمیٹیوں میں بعض کمیٹیاں خاصی اہم ہیں جن میں امورِ خارجہ کی کی کمیٹیاں شامل ہیں۔ حال ہی میں ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی‘ وسطی اور مغربی ایشیا کے ایک اجلاس میں پاکستان سے متعلقہ بعض اہم امور پر بحث ہوئی۔ ان امور میں پاکستان کے انتخابات اور انتخابات کے بعد پاک امریکہ تعلقات کے علاوہ تحریک انصاف حکومت کے دور میں سفارتی ذرائع سے امریکہ میں پاکستان کے سبکدوش ہونے والے سفیر اسد مجید خان کی طرف سے اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کو موصول ہونے والے ایک کوڈڈ مراسلے (سائفر) پر سماعت بھی شامل تھی۔ امریکی کانگرس کے دونوں ایوانوں میں اس قسم کی سماعت اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان پر اس قسم کی سماعتیں ماضی میں متعدد بار ہو چکی ہیں لیکن بدھ (21مارچ) کو ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کی ذیلی کمیٹی کی سماعت اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل اور پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز تھی کیونکہ یہ امریکہ میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے اصرار پر بلائی گئی تھی اوراس میں ''سائفر‘‘ کیس کے مرکزی کردار امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لُو کو اپنا بیان دینے کیلئے بلایا گیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی اور اُن کے پاکستان اور امریکہ میں حامیوں کا مؤقف ہے کہ اپریل 2022ء میں بانی پی ٹی آئی کی حکومت کو امریکی سازش کے ذریعے اقتدارسے الگ کیا گیا تھا اور اس کا ثبوت وہ ''سائفر‘‘ ہے جس میں مبینہ طور پر ڈونلڈ لُو کی امریکہ میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر اسد مجید کے ساتھ ڈونلڈ لُو کی غیر رسمی گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے سائفر میں کسی سازش کی موجودگی کو مسترد کردیا تھا اور خود اسد مجید نے بھی اس کی تردید کی تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے اور پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی بنیاد اس بیانیہ پر رکھی تھی کہ انہیں (امریکی) سازش کے تحت اقتدار سے محروم کر کے پی ڈی ایم حکومت کو پاکستانی عوام پر زبردستی ٹھونسا گیا تھا۔
مسٹر ڈونلڈ لُو کو اس سارے قصے میں ایک کلیدی گواہ کی حیثیت حاصل تھی اور امریکہ میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو یقین تھا کہ ذیلی کمیٹی میں اُن کے بیان سے بانی پی ٹی آئی کے الزام کی تصدیق ہو جائے گی۔ اسی لیے اُن کی ایک بڑی تعداد سماعت کے دوران کمیٹی روم میں موجود تھی۔ مگر مسٹر لُو کے بیان نے پی ٹی آئی کے سازش کے غبارے سے بچی کھچی ہوا بھی نکال دی کیونکہ امریکی سفارتکار نے بڑے واضح‘ دو ٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں بانی پی ٹی آئی کے سازش کے الزامات کو جھوٹ اور غلط بیانیوں کا پلندہ قرار دیا۔ اس پر کمرے میں موجود پی ٹی آئی حامیوں کی طرف سے خفگی اور ناراضی کا اظہار بھی کیا گیا اور جب انہوں نے مسٹر لُو پر جھوٹا ہونے کا الزام لگا کر بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کی تو انہیں گیلری سے نکال دیا گیا۔ ڈونلڈ لُو نے کمیٹی کے اراکین کو یہ بھی بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے اُن پر سازش کا الزام عائد کرنے کے بعد انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ ان کے اس بیان سے پی ٹی آئی کے حامیوں کو یقینا ہراسٹمنٹ کا سامنا کرنا پڑا ہوگا کیونکہ پاکستان میں تو پی ٹی آئی سے اختلاف رکھنے والے سیاسی کارکنوں اورصحافیوں کو ایک عرصہ سے اس قسم کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کی حمایت میں نعرے لگانے والے امریکیوں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے کچھ دن پیشتر ان دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی حکام کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اعلان کیا تھا۔
دیکھا جائے تو ڈونلڈ لُو کی گواہی پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کی حیثیت اور تعمیری پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ مثلاً انہوں نے پاکستان کی موجودہ حکومت کیساتھ امریکہ کے قریبی تعاون پر مبنی تعلقات کو جاری رکھنے کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کیلئے امریکہ اور امریکہ کو اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ ڈونلڈ لُو نے پاکستانیوں کی جمہوریت سے وابستگی اور نوجوانوں خصوصاً خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی جدوجہد اور لگن کو سراہا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان امریکہ کا ایک اہم نان نیٹو اتحادی ملک ہے۔ دونوں کو بڑھتی دہشتگردی سے خطرہ ہے اور یہ خطرہ دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کا تقاضا کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشی طور پر ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ پاکستان کے متعدد شعبوں خصوصاً انفراسٹرکچر کی تعمیر میں امریکی کمپنیوں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت پسند اور قانون کے بالادست حلقوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ڈونلڈ لُو نے کہا کہ حالیہ انتخابات کے دوران ہونے والی ''بے ضابطگیوں‘‘ پر امریکہ نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مگر انہیں امید ہے کہ پاکستان کے آئینی ادارے ان بے ضابطگیوں کا ازالہ کریں گے کیونکہ ان کی موجودگی سے امریکی حکومت کو پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات برقرار رکھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے جو امریکہ کی خواہش سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس گواہی کے بعد یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ میں بائیڈن حکومت وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو نہ صرف ملک کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ تمام شعبوں میں قریبی تعاون جاری رکھنا چاہتی ہے۔ ایوان نمائندگان کی سب کمیٹی میں ڈونلڈ لُو کی گواہی ایک ایسے موقع پر پیش کی گئی ہے جب امریکہ کے صدارتی انتخابات کی مہم شروع ہونے والی ہے۔ ان انتخابات میں صدر جوبائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اس سماعت کا اہتمام کانگرس کے اُن امیدواروں کے اصرار پر کیا گیا تھا جن کو کانگرس کے اگلے انتخابات میں اپنے حلقوں میں پاکستانی نژاد امریکیوں کے ووٹوں اور عطیات کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی پاکستانی نژاد امریکی اگر اس گواہی سے پاکستان کے بارے میں امریکہ کی موجودہ حکومت کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی امید لگائے بیٹھے تھے تو اُن کی یہ امید پوری نہیں ہوئی۔