عمر ایوب کے قائدِ حزب اختلاف مقرر ہونے کے بعد پاکستان کے جمہوری پارلیمانی نظام کے فعال ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے مگر کیا اس کے بعد ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت اور تعاون پر مبنی سیاسی استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں دینا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ پی ٹی آئی نے عید کے بعد اپنی احتجاجی تحریک کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن طور پر چلانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کے بیان کے مطابق پارٹی موجودہ حکومت کو ناجائز سمجھتی ہے جسے‘ ان کے مطابق‘ عوام کا مینڈیٹ چوری کر کے تشکیل دیا گیا ہے‘ اس لیے اسے اس کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کے فوراً بعد پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کے مطابق یہ تحریک تین لیول پر چلائی جائے گی‘ اسمبلیوں کے اندر‘ عدالتوں کے ذریعے اور جلسے جلوسوں کے ذریعے۔ اسی لیے پارٹی نے انتخابی نتائج مسترد کرنے کے باوجود نہ صرف خیبرپختونخوا میں حکومت تشکیل دی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی اپنی نشستیں سنبھال کر حزبِ اختلاف کی قیادت کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لی ہیں اور عمر ایوب خان کو قائدِ حزبِ اختلاف مقرر کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی بھی روایتی طور پر قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس رہی ہے اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ عمر ایوب پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہوں گے۔لیکن اسمبلیوں میں موجودگی سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ اس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانون سازی اور دیگر امور پر تعاون کے دور کا آغاز ہو گا بلکہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی میں حکومتی اقدامات کی نہ صرف مخالفت کرتے بلکہ اس راہ میں ہر قسم کی رکاوٹ کھڑی کر کے حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرکے صوبے کیلئے مرکز کی امداد کی درخواست کر چکے ہیں‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ مرکزی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتے۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو مرکز سے ہر قسم کا ناتا توڑنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ اس لیے اسمبلیوں میں موجودگی حکومت‘ اپوزیشن مصالحت اور ملک میں سیاسی امن اور تعاون کی ضمانت نہیں بلکہ جیسا کہ رئوف حسن کہہ چکے ہیں کہ یہ مشق ان کی اُس احتجاجی تحریک کا حصہ ہے جسے وہ جلسوں اور جلوسوں کی شکل میں اسمبلیوں سے باہر بھی چلائیں گے اور اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ان کے تین بڑے مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔ ان تین بڑے مقاصد میں آٹھ فروری کے انتخابات میں مبینہ طور پر چوری ہونے والے مینڈیٹ کی واپسی‘ پارٹی کی خواتین کارکنوں کی جیل سے رہائی‘ بانی چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف تمام مقدمات کا خاتمہ اور رہائی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے مطابق عید کے بعد ایک باقاعدہ اور منظم احتجاجی تحریک چلائی جائے گی اور اسے مؤثر اور ملک گیر بنانے کیلئے پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں مثلاً مجلس وحدت مسلمین‘ محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل‘ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتخابات کے کچھ عرصہ بعد پی ٹی آئی کے بانی نے اسد قیصر کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے وسیع البنیاد سیاسی اتحاد قائم کرنے کیلئے ایک کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر اسد قیصر نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ عوامی نیشنل پارٹی‘ جے یو آئی (ایف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاوہ بلوچستان میں بی این پی مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک کی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف حکومت کے خلاف تحریک میں شمولیت کی دعوت دی ۔ اب تک صرف بی این پی مینگل اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس کی ہامی بھری ہے۔ اے این پی نے تو پی ٹی آئی کی تحریک میں شامل ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کی رائے میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حریف پارٹیوں‘ جن میں اے این پی بھی شامل ہے‘ کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا۔ اس قسم کی شکایت پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محسن داوڑ کو بھی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں میں سے اب تک پی ٹی آئی صرف بی این پی مینگل اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ سردار اختر مینگل کی پارٹی پہلے ہی پی ٹی آئی حکومت (2018-22ء) کا حصہ رہ چکی ہے مگر ڈاکٹر عبدالمالک کی نیشنل پارٹی نے پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے‘ اگرچہ نیشنل پارٹی کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا مگر دھاندلی کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر پی ٹی آئی سے مختلف ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی پیر پگارا کی سرکردگی میں قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(GDA)کے ساتھ رابطے میں ہے مگر جی ڈی اے نے نہ صرف اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے بلکہ اس کا مطالبہ ہے کہ انتخابات کے تمام نتائج کو منسوخ کرکے نئے سرے سے انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔
ی ٹی آئی نے عید کے بعد جس احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے اس کے پُرامن اور آئین و قانون کے دائرے میں رہنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دفعہ پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک ماضی سے مختلف ہو گی‘ اس میں وقفے کے ساتھ جلسوں اور جلوسوں سے کام لیا جائے گا‘ دھرنوں اور گھیراؤ سے احتراز کیا جائے گا اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بجائے ایوانوں میں موجود رہ کر حکومت کی مخالفت کی جائے گی۔
دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی پوزیشن نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ سینیٹ میں بھی مضبوط نظر آتی ہے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں حکومتی اتحاد کو ایوانِ بالا میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی‘ اس لیے قانون سازی کے عمل میں کامیابی کیلئے اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مدد بہ آسانی حاصل ہو گی۔ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو کر نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ سینیٹ میں بھی کمزور ہو چکی ہے اس لیے پارلیمانی ذرائع سے حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ پی ٹی آئی اپنے کارکنوں اور بانی کے خلاف عدالتوں میں دائر مقدمات کا اپنے حق میں فیصلہ کرانے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ بعض اہم مقدمات میں اسے ریلیف بھی ملا ہے مگر عدالتی عمل نہ صرف طویل بلکہ مشکل ہے اور اس میں پی ٹی آئی کے مقاصد کے جلد حصول کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پی ٹی آئی کے چند سینئر رہنما جن میں سینئر ایڈووکیٹ حامد خان اور بیرسٹر علی ظفر شامل ہیں‘ عدالتوں کے آپشن کو پوری توجہ اور عدلیہ سے محاذ آرائی کے بغیر استعمال کرنے پر مصر ہیں۔ خود چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا لب و لہجہ بھی آئینی اور قانونی راستے پر چلنے کو ترجیح دیتا ہے مگر بانی پی ٹی آئی کا مزاج کچھ مختلف ہے اور وہ اس صورتحال کو شاید زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کے خیال میں اگر آئینی اور قانونی طریقے ہی استعمال کیے گئے تو حکومت اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری لا کر اگر اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی تو وہ اگلے پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس کو روکنے کیلئے آنے والے دنوں میں حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کی تحریک میں تیزی آ سکتی ہے۔