غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی‘ بحری اور برّی حملے جاری ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی میں رہنے والے فلسطینی باشندے کسی کونے میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اب جنوبی حصے رفح میں پناہ لینے والے لاکھوں فلسطینی باشندوں کے خلاف بھی اسرائیل کے زمینی اور ہوائی حملے جاری ہیں۔ بین الاقوامی برادری کے سخت احتجاج اور مطالبے کے باوجود اسرائیلی ٹینک غزہ کے جنوب میں فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ رفح میں شہری آبادی پرگولہ باری کر رہے ہیں اور جنگی طیارے آسمان سے بم گرا رہے ہیں۔ہر روز بیسیوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 36 ہزار سے زائد ہو چکی ہے جبکہ 80 ہزار سے زائد زخمی ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت کے حوالے سے یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ قریب آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے بعد بھی اسرائیل فلسطینیوں کے عزم اور حوصلے کو ختم نہیں کر سکا بلکہ اپنی بے پناہ طاقت کے باوجود یہ جنگ ہار چکا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) کے ایک حالیہ فیصلے میں اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر فوجی آپریشن روکنے اور مصر کے ساتھ سرحد کھولنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی عدالت کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ایک واضح چارج شیٹ ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ 28 مارچ کے عبوری فیصلے کے بعد سے غزہ میں حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے غزہ کی فلسطینی آبادی کے جان و مال اور عزت کو سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس خدشے کے پیشِ نظر عدالت نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کمیشن کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے میں پورا تعاون مہیا کرے۔ یاد رہے کہ عالمی عدالت انصاف نے 28 مارچ کو جنوبی افریقہ کی درخواست کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کا حکم نہیں دیا تھا مگر اِس دفعہ جنوبی افریقہ کی درخواست پر عدالت نے اسرائیل کو رفح میں نہ صرف فوری طور پر فوجی آپریشن روکنے کا حکم دیا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن بھی بھیجنے کا اعلان کیا۔ حماس‘ فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے؛ تاہم بعض حلقوں کی طرف سے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے جو بلا جواز نہیں‘ کیونکہ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ تو سنا دیا ہے مگر اس کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کا اختیار نہیں ہے۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اقوام متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے‘ اور یہ عدالت اپنے فیصلے بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر کرتی ہے‘ جس میں فریقین افراد کے بجائے آزاد اور خودمختار ریاستیں ہوتی ہیں‘ جن پر کوئی ادارہ یا طاقت ان کی مرضی کے خلاف اپنی رائے یا فیصلہ مسلط نہیں کر سکتا؛ البتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے تحت رکن ممالک کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں مؤثر اقدامات کا پابند کر سکتی ہے لیکن فلسطینیوں سمیت دنیا بھر کے عوام کو معلوم ہے کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کردہ ہر ایسی تجویز کو امریکہ ویٹو کر دے گا‘ جس کا مقصد اسرائیل کو اس کے جرائم کی سزا دینا ہو۔ اس کی تازہ مثال سلامتی کونسل میں پیش کردہ جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کے خلاف امریکی ویٹو کا استعمال ہے جس میں سلامتی کونسل سے فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ کا فل ممبر بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 76 برسوں سے اسرائیل نہ صرف اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد بار فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کا مرتکب چلا آ رہا ہے۔ تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی یہ مذمتی قراردادیں رائیگاں جائیں گی۔ اسرائیل کو ہر محاذ (سیاسی‘ قانونی‘ اخلاقی اور معاشی سطح) پر نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا حالیہ فیصلہ‘ جس کے تحت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کا ایک مشن بھیجنے کی سفارش کی گئی ہے‘ اسرائیل کی سفارتی سطح پر پہلی شکست نہیں ہے۔ اس سے چند روز قبل یورپ کے تین ملکوں ناروے‘ آئرلینڈ اور سپین کی جانب سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان اسرائیل کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ثابت ہوا کیونکہ ان تینوں ملکوں کے علاوہ متعدد دیگر یورپی ممالک اور آسٹریلیا بھی فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 11 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 میں سے 139 ارکان کی حمایت سے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں سلامتی کونسل سے فلسطین کو ایک فل ممبر کی حیثیت سے عالمی ادارے کا رکن منتخب کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں نمائندگی دینے کا سلسلہ 1974ء میں شروع ہوا تھا‘ جب جنرل اسمبلی کے ارکان کی بھاری اکثریت نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو اقوام متحدہ میں ایک آبزرور کی حیثیت دینے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس فیصلے کو رکوانے کے لیے امریکہ نے بہت کوشش کی کیونکہ اس زمانے میں امریکہ اور اسرائیل پی ایل او کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر فلسطینی تحریکِ آزادی کو دنیا میں الگ تھلگ کرنے کے درپے تھے‘ لیکن 1970ء کی دہائی تک اقوام متحدہ میں ایشیا اور افریقہ سے نئے آزاد ہونے والے ممالک کی بڑی تعداد میں شمولیت سے عالمی ادارے میں بلاک ووٹنگ کے توازن میں ایک انقلابی تبدیلی آ چکی تھی۔ سلامتی کونسل میں چونکہ امریکہ کو ویٹو پاور حاصل ہے‘ اس لیے اقوام متحدہ کے اس ادارے میں اسرائیل کے خلاف یا کسی اور ایسے مسئلے پر‘ جس میں امریکہ کی رضامندی نہ ہو‘ قرارداد منظور نہیں کی جا سکتی لیکن جنرل اسمبلی میں ایسا ممکن تھا کیونکہ اس ادارے میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے رجحان میں اس تبدیلی پر امریکہ بہت سیخ پا ہوا اور اس نے اسے اکثریت کے استبداد (Tyrony of the majority) کا نام دے کر اقوام متحدہ کے بجٹ میں اپنے حصے کی رقم کم کرنے کی دھمکی بھی دی مگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یورپی نوآبادیاتی نظام اور امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف مذمتی قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ جاری رہا۔
قومی آزادی کی جس تحریک کے حق میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سب سے زیادہ آواز اٹھائی جاتی تھی ان میں پی ایل او بھی شامل تھی۔ 1974ء میں پی ایل او کو جب جنرل اسمبلی میں ارکان کی بھاری اکثریت نے اقوام متحدہ میں آبزرور کا سٹیٹس دیا تو اس وقت دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل فلسطینی اتھارٹی کے نام سے فلسطینیوں کی نیم آزاد اور جزوی طور پر خود مختار ریاست وجود میں نہیں آئی تھی (یہ ریاست 1993ء کے اوسلو معاہدے کے تحت بنی) ۔جو لوگ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے حالیہ فیصلے کو اس لیے ناکامی سمجھ کر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان فیصلوں کی حیثیت محض نمائشی ہے اور ان سے برسرِ زمین حقائق میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی انہیں ان فیصلوں کو تاریخی عمل کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب پوری اقوام متحدہ امریکہ کی مٹھی میں تھی اور وہ بڑی آسانی سے اس عالمی ادارے کے پلیٹ فارم سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا لیا کرتا تھا۔ ان میں فلسطین کی تقسیم اور بین الاقوامی قانون اور اقوام امتحدہ کے چارٹر کے برعکس اسرائیل کے قیام کا فیصلہ بھی تھا مگر اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور یہی تبدیلی بالآخر فلسطینیوں کے جائز اور قومی مطالبات کی منظوری کی شکل میں ظاہر ہو گی۔