بھارت میں اٹھارہویں لوک سبھا (قانون ساز اسمبلی) کے انتخابات کے نتائج نے ایک غیر متوقع اور دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے۔ نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کی قیادت میں قائم ہونے والے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) نے اسمبلی کی543 میں سے 294 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اورنریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم کا امیدوار بنا دیا ہے‘ اس طرح 1962 ء میں پنڈت نہرو کے بعد نریندر مودی متواترتیسری دفعہ بھارت کے وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ مگر نئی دہلی میں بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں اس کامیابی کا جشن منانے والے پارٹی کارکنوں اور رہنمائوں کے چہروں پر خوشی کے بجائے مایوسی اور افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگرس (اندرا گاندھی) کی رہنمائی میں 27پارٹیوں کے اتحاد ''انڈیا‘‘ نے 231 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد مرکز میں حکومت سازی کیلئے درکار 272 نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے‘ مگر اس کے باوجود کانگرس اور اس کی اتحادی جماعتیں ان انتخابی نتائج کو اپنے لیے ایک بڑی فتح اور وزیر اعظم مودی کی شکست قرار دے رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے نریندر مودی نے اپنے انتخابی اتحاد این ڈی اے بالخصوص اپنی پارٹی بی جے پی کی کامیابی کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ گزشتہ یعنی 2019ء کے انتخابات میں حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 353تھی اور ان میں بی جے پی کے 303 اراکین تھے لیکن اس دفعہ این ڈی اے 295 نشستیں حاصل کر سکا ہے جن میں بی جے پی کی 240 نشستیں ہیں۔ اس طرح بی جے پی لوک سبھا میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اب نریندر مودی کو بھارت کا وزیر اعظم بننے کے لیے این ڈی اے میں شامل اتحادی پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ ان اتحادی جماعتوں میں بہار میں لوک سبھا کی 12 نشستیں جیتنے والی نتیش کمار کی پارٹی جنتا دَل (یونائیٹڈ) اور آندھرا پردیش میں 16 نشستیں جیتنے والی تیلگو ڈیسام پارٹی (ٹی ڈی پی) شامل ہیں۔ نریندر مودی ان دونوں اتحادی پارٹیوں کی مدد سے مرکز میں حکومت بنا سکتے ہیں‘ مگر ان پارٹیوں کے رہنما چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار بار بار پارٹیاں بدلنے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے نریندر مودی اگر وزیراعظم بن بھی جائیں تو وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہوں گے کیونکہ ان کی حکومت ہر قدم پر اپنے اتحادیوں کی حمایت کی محتاج ہو گی۔
مودی اور ان کی پارٹی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی کامیابی کی گاڑی جس رفتار سے گزشتہ دس برس سے چلی آ رہی ہے‘ 2024ء میں وہ پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکلے گی اور اپوزیشن کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کو انہوں نے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا دیا ہے اور اب آئندہ پانچ برسوں میں وہ اسے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنادیں گے۔ مودی کا خیال تھا کہ انہوں نے ایودھیا میں رام مندر تعمیر کر کے 80 فیصد ہندوئوں کے ووٹ پکے کر لیے ہیں‘ اس لیے انہوں نے ''اب کی بار... چار سو پار‘‘ یعنی لوک سبھا کی 543 میں سے 400 نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کا مین سٹریم میڈیا بھی نریندر مودی کی آواز میں آواز ملا رہا تھا اور پولنگ ختم ہونے کے بعد اور نتائج آنے سے پہلے‘ ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً تمام پولسٹرز نے جس طرح یک زبان ہو کر این ڈی اے کی 400 سے زائد نشستوں کے ساتھ کامیابی کا اعلان کیا‘ اس سے اپوزیشن کے انتخابی اتحاد ''انڈیا‘‘ میں سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی۔ بھارت ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مودی کی بھاری اکثریت کے ساتھ لینڈ سلائیڈ وکٹری کی خبر پھیلا دی گئی مگر جب نتائج آنا شروع ہوئے تو نقشہ ہی بدل گیا اور کانگرس کے بجائے بی جے پی کے کیمپ میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ بی جے پی کو ایسے ایسے محاذوں پر سے بھی شکست کی خبریں موصول ہو رہی تھیں جنہیں وہ ناقابلِ تسخیر سمجھ بیٹھے تھے۔ ان میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے ہاتھوں شکست بھی شامل ہے۔ اسی طرح این ڈی اے نے مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں جو ٹارگٹ مقرر کر رکھے تھے وہ بھی حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اگرچہ بی جے پی نے ان انتخابات میں جنوبی بھارت کی دو ریاستوں کیرالا اور تامل ناڈو میں پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اور اڑیسہ میں پہلی مرتبہ ریاستی حکومت بنانے جا رہی ہے مگر انتخابات کے مجموعی نتائج نریندر مودی کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے بھارت کا سیاسی نقشہ ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ بی جے پی کو اس کے روایتی گڑھ‘ ہندی بیلٹ میں پہلی دفعہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ نریندر مودی اور بی جے پی کا خیال تھا کہ اتر پردیش میں ''جوگی‘‘ (نریندر مودی) اور یوگی (ادتیا ناتھ) کی نام نہاد ''گڈ گورننس‘‘ اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سے ان کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گئی ہے مگر اتر پردیش اور بہار میں مسلمانوں اور دلتوں کے باہمی اتحاد نے مودی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پچھلی ایک دہائی سے مودی مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ان کوششوں کے نتیجے میں بی جے پی نے مغربی بنگال میں اپنے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے مگر اس دفعہ ممتا بینرجی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو کر ابھری ہیں۔
بھارت کے میڈیا اور مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ نریندر مودی ناقابلِ شکست نہیں ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت جس طرح ''وَن پارٹی راج‘‘ اور شخصی آمریت کی طرف جا رہا تھا‘ اس کا بھی اب خاتمہ ہو گیا ہے اور اب وہ ایک دفعہ پھر 1989ء کے بعد شروع ہونے والے مخلوط حکومتوں کے دور کی طرف لوٹ گیا ہے۔ ان نتائج نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ انتہا پسند ''ہندوتوا‘‘ کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا کر ہندوئوں کی اکثریت کی حمایت کو ووٹ کی شکل میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ رام مندر کی تعمیر پر ہندو خوش ہو سکتے ہیں مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ بدلے میں مودی کے ووٹر بھی بن جائیں۔ ان انتخابی نتائج سے بھارت کی یہ اہم سیاسی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ80 فیصد کے قریب ہندو آبادی کی بھاری اکثریت بھارت میں مذہب کی بنیاد پر نفاق‘ نفرت اور عدم برداشت پر مبنی سیاست کے خلاف ہے۔ ان نتائج سے بھارت میں پہلی مرتبہ یہ حقیقت اجاگر ہوئی ہے کہ اگر مسلمانوں سمیت بھارت کی اقلیتیں اور مظلوم اور پسے ہوئے طبقات یعنی دلت وغیرہ آپس میں مل جائیں تو وہ بھارت میں انتہا پسند نظریے ہندوتوا کو شکست دے سکتے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں کانگرس ایک مضبوط اور فعال پارٹی بن کر ابھری ہے۔ یہ نہ صرف بھارت میں سیکولر اور مذہبی انتہا پسندی کی مخالف قوتوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے بلکہ اس سے پاک بھارت تعلقات میں موجود ڈیڈ لاک ختم ہونے کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ 'انڈیا‘ میں شامل متعدد پارٹیاں بشمول کانگرس اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے یکطرفہ اقدامات اور آرٹیکل 370 کے خاتمے پر سخت تحفظات رکھتی ہیں۔