بھارت میں اٹھارہویں لوک سبھا (بھارتی پارلیمنٹ) کے انتخابات کے حتمی نتائج آنے کے بعد حکومت سازی کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ نریندر مودی نے بھارتی صدر دروپدی مرمو کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے۔ بھارت کی صدرنے بی جے پی کو مرکز میں حکومت بنانے کی دعوت دی ہے کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں انتخابات میں حصہ لینے والے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے لوک سبھا کے ایوانِ زیریں کی 543 میں سے 294 نشستیں جیت کر حکومت سازی کی اہلیت حاصل کر لی ہے‘ البتہ اس میں نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کی نشستیں 240 ہیں‘ جبکہ حکومت سازی کے لیے کم از کم درکار تعداد 272 ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں؛ چنانچہ نریندر مودی کو اب وزیراعظم بننے کے لیے این ڈی اے میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً آندھرا پردیش میں 16 پارلیمانی سیٹیں حاصل کرنے والی چندرا بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی اور بہار میں 12 سیٹوں کے ساتھ کامیاب ہونے والی نتیش کمار کی جنتا دَل (یونائیٹڈ) کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔ اگرچہ ان دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے بطور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے تاہم بھارت کے سیاسی حلقوں میں یہ سوال سنجیدگی سے اٹھایا جا رہا ہے کہ 2024ء کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں کیا نریندر مودی گزشتہ 10 برس ہی کی طرح اپنی وزارتِ عظمیٰ چلائیں گے یا اپنے رویے اور پالیسی میں کوئی تبدیلی لائیں گے؟ اس سوال کی تین وجوہات ہیں۔ ایک‘ ماضی میں نریندر مودی نے اپنے اختیارات کو بلا شرکت غیرے اور من مانے طریقے سے استعمال کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی جماعت بی جے پی گزشتہ دونوں انتخابات میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری اور حکومت سازی میں یہ اپنے اتحادیوں پر منحصر نہیں تھی‘ مگر اِس دفعہ انفرادی طور پر بھلے بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے مگر اس کے باوجود یہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اتحادی یعنی بہار کے نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چندرا بابو نائیڈو نہ صرف مودی سے نظریاتی طور پر اختلاف رکھتے ہیں بلکہ اقتدار میں وہ زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے بھی خواہش مند ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے اپنی پارٹی کے لیے لوک سبھا کی سپیکر شپ اور مرکز میں چھ وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح نتیش کمار‘ جن کی پارٹی جے ڈی یو نے ریاست بہارمیں 12 پارلیمانی سیٹیں حاصل کی ہیں‘ ایک منجھے ہوئے اور کامیاب سیاستدان ہیں۔ انہوں نے بہار کا وزیر اعلیٰ بن کر ریاست میں لالو پرشاد یادَو کی ضرب المثل لا قانونیت کو ختم کر کے بہار کو ترقی اور خوشحالی دی۔ وہ بھی اب مرکز میں اپنے حصے کی وزارتوں کا مطالبہ کریں گے۔ اسی طرح ان دونوں رہنمائوں کامسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے رویہ نریندر مودی کے برعکس اور ہمدردانہ ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان پارٹیوں کی کامیابی میں مسلمانوں کی حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ریاست گجرات میں وزیر اعلیٰ اور بھارت کا وزیر اعظم بننے کے بعد مودی کو نہ صرف اپنی اتحادیوں بلکہ ریاست کے اہم اداروں کو نظر انداز کرنے کی بھی عادت پڑ چکی ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے پارلیمنٹ کی کبھی پروا نہیں کی اور میڈیا کو بھی نظر انداز کرتے رہے۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے 10 سالہ دور میں انہوں نے کبھی میڈیا کا براہِ راست سامنا نہیں کیا‘ کوئی پریس کانفرنس تک نہیں کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کیا جس کو بھارت میں وسیع پیمانے پر ڈِس انفارمیشن اور فیک نیوز پھیلانے اور اپوزیشن بالخصوص راہول گاندھی کے حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں سے نتھی کیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی انتخابات کے بعد کی صورتحال میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر پائیں گے اور اپنی پرانی پالیسیوں پر کاربند رہنے کے بجائے نیا انداز اپناسکیں گے؟ بھارت کے مشہور اینکر پرسن کرن تھاپر کے پروگرام میں نریندر مودی کی زندگی پر کتاب لکھنے والے ایک مشہور دانشور نے کہا کہ ایک عرصے تک تحکمانہ اور یکطرفہ فیصلے کرنے کے بعد نریندر مودی میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور نئے حالات میں ڈھالنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے‘ وہ نئے حالات میں بھی پرانے مودی کی طرح ہی حکومت چلانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا ان کا اگلا پانچ سالہ دورِ حکومت ماضی کی طرح پُرسکون نہیں ہو گا کیونکہ اپنی مرضی اور من مانی کے ساتھ دوسروں پر حکم چلانا اب مودی کی جبلت کا حصہ بن چکا ہے۔ دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال کے مطابق اب تو مودی نے اپنے آپ کو ''دیوتا‘‘ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر مودی کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ چلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اُن کی حکومت کی بقا کا تمام تر انحصار اتحادیوں کی حمایت پر ہو گا جو ہر قدم پر‘ خواہ یہ مسئلہ اندرونی سیاست کا ہو یا خارجہ تعلقات کا‘ مودی سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزارتِ عظمی کی آدھی مدت مکمل کرنے کے بعد مودی اپنی جگہ امیت شاہ کو وزیراعظم مقرر کر کے خود بھارت کے صدر کی مسند پر براجمان ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ موجودہ صدر دروپدی مرمو کی پانچ سالہ مدت جولائی 2027ء میں ختم ہو جائے گی۔ بیشتر ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں نریندر مودی کی تیسری حکومت میں بھارت کی خارجہ پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں‘ البتہ اندرونی محاذ پر ہندوتوا اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جارحانہ پالیسی کو جاری رکھنا مشکل ہو گا کیونکہ الیکشن کے نتائج نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت کے ہندو اپنے مذہب اور ثقافت سے قریبی لگائو رکھنے کے باوجود انتہا پسندانہ نظریے کے حق میں نہیں۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی وفاقی پارلیمانی نظام ہے مگر 2014ء کے بعد 2019ء اور اب 2024 ء کے انتخابات میں بھی نریندر مودی نے صدارتی انتخابات کی طرز پر الیکشن میں حصہ لیا اور مودی بھگتوں کے بیانات نے بھارت کے عوام میں یہ خدشہ پیدا کر دیا کہ نریندر مودی بھارت کے پارلیمانی نظام کو صدارتی طرزِ حکومت میں تبدیل کر کے آمرانہ اختیارات کے مالک بننا چاہتے ہیں۔ بھارت‘ جس میں مختلف رنگ و نسل‘ مذہب‘ ثقافت زبان اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ بستے ہیں‘ وہاں مرکزیت پر مبنی آمرانہ نظام نہیں چل سکتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اسی قسم کا نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسے ناکامی اور ملک گیر جنگ کا سامنا کرنا پڑا‘ اس لیے تاجِ برطانیہ نے کمپنی کی حکومت ختم کر کے براہِ راست کنٹرول سنبھال لیا۔ بعد ازں مختلف صوبے قائم کرنے کے ساتھ پہلے سے موجود ریاستوں اور قبائلی علاقوں کو داخلی خود مختاری دی گئی اور 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت وفاقی طرز کا نظامِ حکومت نافذ کیا گیا۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی وفاقی پارلیمانی نظام پر قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور تقریبا ًتمام سیاسی جماعتوں کی رائے میں یہ نظام اور اس پر مکمل شفافیت کے ساتھ عمل درآمد ہی پر بھارت کی بقا کا انحصار ہے۔ راجیو گاندھی سے ایک دفعہ سوال پوچھا گیا تھا کہ بھارت میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام کے قیام کے کیا امکانات ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر بھارت میں پارلیمانی نظام تبدیل کر کے صدارتی نظام نافذ کیا گیا تو بھارت کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔تاہم بی جے پی شروع سے ہی آمرانہ طرز کے صدارتی نظام اور مضبوط مرکز کے حق میں رہی ہے۔ 2024ء کے انتخابات میں بی جے پی کی عوامی حمایت میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام میں خدشات پیدا ہو گئے تھے کہ نریندر مودی کو دو تہائی اکثریت ملنا بھارت کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔