حال ہی میں سوئٹزرلینڈ میں (15 تا 16 جون) یوکرین میں جاری جنگ کے مسئلے پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں روس کے خلاف یوکرین کو اقتصادی اور عسکری امداد فراہم کرنے والے یعنی امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے ممالک نے شرکت کی۔ ان میں جاپان‘ انڈونیشیا‘ بھارت‘ جنوبی افریقہ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہیں۔ روس اور چین کو اس کانفرنس میں مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو دعوت موصول ہوئی تھی مگر حکومتِ پاکستان نے یوکرین کے مسئلے پر اپنی غیر جانبدارانہ پوزیشن ظاہر کرنے کے لیے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ کانفرنس میں جن ممالک‘ عالمی اور علاقائی تنظیموں اور این جی اوز نے شرکت کی ان کی مجموعی تعداد تقریبا 100 ہے مگر ان میں سے قریب 10 شرکا نے کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ پر دستخط نہیں کیے۔ جن ممالک نے اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کیا ان میں بھارت‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان ممالک کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ چونکہ ان ممالک کے دو طرفہ بنیادوں پر‘ اور برکس کی رکنیت کے ذریعے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں‘ اس لیے انہوں نے اعلامیہ پر دستخط نہیں کیے کیونکہ اس اعلامیہ میں یوکرین میں روسی کارروائی کو جارحیت قرار دے کر اسے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ البتہ سرکاری طور پر ان ملکوں نے اعلامیہ پر دستخط نہ کرنے کی وجہ روس اور چین کو کانفرنس میں مدعو نہ کرنا بتایا ہے۔ سب سے دلچسپ وضاحت جنوبی افریقہ کی طرف سے پیش کی گئی۔ جنوبی افریقہ نے کانفرنس میں اسرائیل کی شرکت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا ملک (اسرائیل) جسے صرف چند دن پیشتر عالمی فوجداری عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا اور اس کے وزیراعظم کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرنے پر غور کیا جا رہا ہے‘ جو چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے‘ اس کی موجودگی میں بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی شقوں پر زور دینا منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا‘ اور امریکہ اسے اپنے ساتھ ملا کر یوکرین میں روسیوں کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں پر کاربند ہونے کی تلقین کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ صریح اور واضح دوعملی اور منافقت نہیں ہو سکتی۔
مذکورہ ممالک کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف سے بھی یوکرین پر عالمی سربراہی کانفرنس پر تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے یوکرین میں جنگ جلد بند ہونے یا امن قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس کانفرنس کی بنیادی خامی دو بڑے سٹیک ہولڈرز؛ روس اور چین کی عدم شرکت تھی۔ روس کی فوجیں نہ صرف یوکرین میں موجود ہیں بلکہ ملحقہ مشرقی اور جنوبی علاقوں پر قابض بھی ہیں۔ یوکرین جنگ میں اگرچہ چین روس کا باضابطہ اتحادی نہیں ہے تاہم اس نے امریکہ کی طرف سے روس کے خلاف تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے روس سے نہ صرف وسیع پیمانے پر تیل اور گیس خریدنے کے معاہدوں پر دستخط کیے بلکہ دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافہ کر کے روس کو ایسے آلات اور پرزے بھی فراہم کیے جو روس کی معیشت کو سہارا فراہم کر سکتے اور اس کی جنگی استعداد میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی یوکرین میں جنگ ختم کرنے اور امن کے قیام کیلئے روس اور چین‘ دونوں سے رابطہ کرنے اور فریقین کیلئے ایک قابلِ قبول حل کے حصول کیلئے بات چیت کا اہتمام کیا جاتا‘ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
امریکہ نے گزشتہ ایک عشرے سے روس کو پہلے اقتصادی پابندیوں اور اب یوکرین کو اسلحہ اور گولا بارود فراہم کر کے یوکرین سے یکطرفہ طور پر نکل جانے پر مجبور کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یوکرین 1991ء سے پہلے سوویت یونین کا حصہ تھا مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اس نے اس سے علیحدگی اور آزادی کا اعلان کر دیا۔ سوویت یونین کی جگہ روس کی شکل میں نئے ملک نے یوکرین کے اس فیصلے کو تسلیم کیا مگر ایک آزاد اور علیحدہ ریاست کے باوجود یوکرین روس کے متعدد سٹرٹیجی مفادات کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ تین طرف سے اس کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔ اس کے جنوبی اور مشرقی حصوں میں روسیوں کے ایک بڑی تعداد آباد ہے‘ جو یوکرین اور روس کے قریبی اور دوستانہ تعلقات کی حامی ہے۔ سب سے بڑھ کر بحیرہ اسود‘ جہاں روس کا ایک بڑا بحری بیڑا قیام پذیر ہے اور جہاں سے آبنائے باسفورس (ترکی) کے ذریعے روس مشرقی بحیرہ روم اور اس سے آگے نہر سویز کے راستے بحر ہند اور اس کے آس پاس افریقی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ رابطہ پیدا کر سکتا ہے‘ کا ایک لمبا ساحل یوکرین کا حصہ ہے جہاں سے نہ صرف روس کے بحری بیڑے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ روس کے مشرقِ وسطیٰ اور بحر ہند کے اردگرد کے ممالک کے ساتھ روابط کو بھی منقطع کیا جا سکتا ہے۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے فوراً بعد امریکہ نے نوزائیدہ ریاستوں‘ جن میں یوکرین بھی شامل ہے‘ کو نیٹو میں شامل کرنے کے پلان پر عمل شروع کر دیا۔ اس اقدام کو روس نے اپنی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ سمجھ کر ضروری جوابی اقدامات کیے جن میں2014 ء میں کریمیا پر قبضہ اور فروری 2022ء میں یوکرین میں اپنی فوجیں داخل کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
دنیا کا ہر ملک یوکرین کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی تحفظ کا حامی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ یوکرین کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اس کے ساتھ روس کے اہم سٹرٹیجک مفادات بھی وابستہ ہیں‘ جن کا احترام لازم ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے خالصتاً جیو پولیٹکل مفادات کے تحت یوکرین میں جنگ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کو ساتھ ملا کر روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے اور روس کو دنیا بھر میں الگ تھلک کرنے کے علاوہ یوکرینی صدر زیلنسکی کی حکومت کو اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیار بھی فراہم کیے ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کو روس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے فروری 2022ء سے اب تک 50 بلین ڈالر کی سکیورٹی امداد فراہم کر چکے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کانفرنس سے پہلے اٹلی میں امریکہ اور جی سیون ممالک کی سربراہی کانفرنس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے ساتھ ایک دو طرفہ دس سالہ معاہدے پر دستخط کیے‘ جس کا مقصد امریکہ کی جانب سے یوکرین کو مزید مالی اور عسکری امداد فراہم کرنا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی سربراہی کانفرنس میں شریک امریکی نائب صدر کمالا ہیرس نے اس معاہدے کے تحت فوری طور پر ڈیڑھ بلین ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ یوکرین کو روس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے امداد کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ دوسری طرف روس نے امریکی دبائو کا مقابلہ کرنے کے لیے چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا ہے اور اب شمالی کوریا کے ساتھ بھی معاشی اور عسکری شعبے میں سٹرٹیجیک تعاون پر مبنی قریبی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے روسی صدر نے حال ہی میں شمالی کوریا کا دورہ کر کے صدر کم سے ملاقات کی ہے۔ یوکرین جنگ جاری رہنے سے عالمی سطح پر ایک طرف امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی اور دوسری طرف روس اور اس کے دوست ممالک بشمول چین اور شمالی کوریا کے درمیان ایک نئی صف بندی وجود میں آ رہی ہے‘ جو ہر لحاظ سے علاقائی اور عالمی امن و استحکام اور معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔