ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان نے اپنے عہدے کا باقاعدہ حلف اٹھا لیا ہے۔ ایران میں قیادت کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی دنیا بھر میں خلیج فارس کے خطے کے اس اہم ملک کی آئندہ علاقائی اور عالمی پالیسیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کیونکہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان اپنے مرحوم پیشرو ابراہیم رئیسی کے مقابلے میں اعتدال پسند سوچ کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن حلف اٹھانے سے قبل صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں اپنے حریف پر برتری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے جو ایک آدھ بیان جاری کیا تھا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے بعض ایشوز پر موجودہ تعطل کو ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ مثلاً ایران کے ایٹمی پروگرام پر مغربی ممالک کے ساتھ بات چیت۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ یورپی ممالک کے ساتھ 2015ء کے معاہدے کی بنیاد پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ نئے ایرانی صدر کا یہ بیان اہم ہے‘ مگر اسے ایران کے ایٹمی پروگرام پر مؤقف میں کسی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ایران امریکی دباؤ یا اسرائیلی دھمکیوں کے تحت اس معاہدے میں کسی تبدیلی پر تیار نہیں ہو گا۔ امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ ایران کو سخت اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنا کر اپنے جوہری پروگرام اور دور مار میزائل کی پروڈکشن سے محروم کر دیا جائے تاکہ یہ اسرائیل کیلئے خطرے کا باعث نہ رہے مگر ایران نہ تو اپنے پُرامن جوہری پروگرام کیلئے درکار افزودہ یورینیم کی تیاری کے حق سے دستبردار ہو گا اور نہ ہی اپنا میزائل پروگرام ختم کرے گا کیونکہ اسے ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے اپنے دفاع کیلئے ہر اقدام کا حق حاصل ہے۔ جہاں تک یورپی ممالک کے ساتھ جوہری مسئلے پر نئے ایرانی صدر کی طرف سے بات چیت شروع کرنے پر آمادگی کا تعلق ہے‘ اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔
تاریخی لحاظ سے ایران کے بارے میں یورپی ممالک بالخصوص جرمنی کا رویہ امریکہ اور یورپ کے دو بڑے نوآبادیاتی ممالک برطانیہ اور فرانس کے مقابلے میں زیادہ ہمدردانہ اور باہمی احترام پر مبنی رہا ہے۔ سابق شاہِ ایران کے والد رضا شاہ کے دور میں نازی جرمنی کے ساتھ ایران کے قریبی تعلقات سے سب واقف ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے دوران بھی امریکہ کے مقابلے میں یورپی یونین کا مؤقف زیادہ مثبت اور تعمیری تھا۔ صدر برا ک اوباما کے دور میں ایران سے جوہری پروگرام پر معاہدہ طے کرنے میں چین اور روس کے علاوہ یورپی یونین کے منصفانہ مؤقف کا بھی بڑا دخل تھا۔ اس معاہدے سے‘ جس کے تحت ایران نے افزودہ یورینیم کے گریڈ اور مقدار پر حد کو تسلیم کر لیا تھا‘ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ امریکہ کے اس اقدام اور اس کی طرف سے 2015ء کے معاہدے کی شرائط کا از سر نو جائزہ لینے کے مطالبے کو ایران نے کبھی قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے امریکہ نے نہ صرف اقتصادی پابندیاں برقرار رکھیں بلکہ مزید اور زیادہ سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ ایران کی معیشت ان پابندیوں سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے اثرات ایران کی داخلی صورتحال پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں‘ اس لیے صدر پزشکیان کی طرف سے یورپی ممالک سے بات چیت کی پیشکش جوہری پروگرام پر روایتی مؤقف میں تبدیلی کا اشارہ نہیں بلکہ اقتصادی پابندیوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے ایک کوشش کے مترادف ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ نئے صدر اپنے پیشرو کی خارجہ پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ اس کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ انہوں نے روس اور چین کی تعریف کرتے ہوئے ان دونوں ملکوں سے قریبی تعلقات اور تعاون کی پالیسی کو جاری رکھنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ خصوصاً غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور دمشق کے سفارتخانے پر حملوں کے بعد ایران کے مؤقف میں سختی قابلِ فہم ہے اور اسے جاری رکھنے کا پورا پورا جواز موجود ہے۔
دوسری طرف تہران میں صدر پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہونے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی اسرائیلی میزائل حملے میں شہادت کے بعد ایران‘ اسرائیل کشیدگی ایک انتہائی خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے کیونکہ اس المناک اور انتہائی قابلِ مذمت بزدلانہ حملے سے نہ صرف غزہ میں کسی فوری جنگ بندی کا امکان ختم ہو گیا ہے بلکہ ایران کی طرف سے بھی جوابی کارروائی یقینی ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو فضائی اور میزائل حملوں کا نشانہ بنا کر غزہ کی جنگ کو مغرب کی طرف وسیع کر دیا ہے۔ اب ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اس جنگ کا دائرہ مشرق کی طرف وسیع کر دیا گیا ہے۔ غزہ کی جنگ روز بروز وسیع اور تباہ کن ہونے کی وجہ سے اسرائیل نئے ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی کا بڑا فوکس رہے گا مگر جنگ میں ایران کو ملوث کرنے کی اسرائیلی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے نئے ایرانی صدر کو داخلی امور پر توجہ دینا ہو گی اور خطے میں ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو مزید دوستانہ اور قریبی بنانا ہو گا۔ اس سلسلے میں خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات قابلِ ذکر ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان اور نئے ایرانی صدر کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے جن میں اول الذکر نے مسعود پزشکیان کو صدرمنتخب ہونے پر مبارکباد دی اور دونوں نے گزشتہ سال چین کی وساطت سے ہونے والی مصالحت کے موقع پر اعلان کردہ باہمی تعاون کو فروغ دینے کے وعدوں پر عمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ایران کے دوستانہ تعلقات قومی سلامتی کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ایران کو اس کے ہمسایہ ممالک سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اس سے خلیج فارس کے خطے میں بھی امن اور استحکام کو تقویت ملے گی۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال نے ارد گرد کے خطوں مثلاً مشرقی بحیرۂ روم‘ بحیرۂ احمر‘ خلیج عدن اور خلیج فارس کے امن و استحکام کیلئے بھی سخت خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ علاقائی سطح پر تعاون اور جنگ کے خلاف مزاحمت کے ایک مشترکہ محاذ کی تشکیل ہی ہو سکتا ہے۔ ایران کی طرح سعودی عرب کی طرف سے بھی غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کی جا رہی ہے اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ پاکستان نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کی ہے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران اور پاکستان کی 909 کلومیٹر طویل مشترکہ بین الاقوامی سرحد سے متعلقہ کچھ مسائل دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور غلط فہمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان مسائل میں انسانی سمگلنگ‘ منشیات کا کاروبار اور دونوں ممالک کے خلاف دہشت گردوں کے حملے شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے کچھ کشیدگی بھی پیدا ہو گئی تھی لیکن فوراً ہی اس پر قابو پا لیا گیا اور تعلقات نارمل سطح پر آگئے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی صدر پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت اس امر کا ثبوت ہے۔ امید ہے بلکہ اس کے واضح اشارے بھی موجود ہیں کہ نئے صدر کے دور میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں زیادہ گہرائی اور وسعت آئے گی کیونکہ پاکستان کیلئے ایران اور ایران کیلئے پاکستان نہ صرف باہمی اور دو طرفہ تعاون بلکہ علاقائی امن‘ استحکام اور ترقی کیلئے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔