"DRA" (space) message & send to 7575

پاک بھارت کشیدگی اور عالمی برادری کا کردار

22 اپریل کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلگام کے سیاحتی مقام پر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین ممکنہ جنگ کے بادل جوں جوں گہرے ہوتے جا رہے ہیں‘ دنیا کے اہم ممالک نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ رابطے تیز کر دیے ہیں اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کو کشیدگی کم کرنے اور اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کا کہا جا رہا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کوشش امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کا پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ کو علیحدہ علیحدہ فون کال میں ایسے اقدامات سے احتراز کرنے کا مشورہ دینا ہے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو اور جنگ کا خطرہ بڑھ جائے۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی ترجمان ٹیمی بروس نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ فون پر بات چیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے 22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کرنے اور ذمہ دار عناصر کو ان کے بہیمانہ جرم کی سزا دینے پر زور دیا۔ اس کے ساتھ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے پاکستانی حکام کو بھارتی حکام کے ساتھ کشیدگی کم کرنے‘ براہِ راست مواصلاتی رابطہ قائم کرنے اور جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی برقرار رکھنے کے لیے تعاون کا مشورہ دیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق اس سے قبل پاکستان کے دوست اور خطے میں امن کے خواہشمند ممالک جن میں چین‘ ترکیہ اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں اور سعودی عرب بھی شامل ہیں‘ پاکستان اور بھارت کی مابین ممکنہ جنگ کو روکنے کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کے ساتھ رابطہ قائم کر چکے ہیں۔ ایران نے تو مصالحت کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کر رکھی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین تصادم یا ممکنہ جنگ کے دائرے کو مزید وسیع ہونے سے روکنے کے لیے عالمی برادری‘ اقوام متحدہ یا دوست ممالک کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کی تین بڑی جنگوں (1948ء‘ 1965ء اور 1971ء) میں فائر بندی اقوام متحدہ کے ذریعے عمل میں آئی تھی۔ تاہم اس کے پیچھے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد 1972ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین شملہ معاہدے پر دستخط کے بعد ایک طویل عرصہ تک دونوں ملکوں میں امن اور تعاون کی فضا قائم رہی۔ اس عرصہ کے دوران ذرائع آمد و رفت اور دوطرفہ باہمی تجارت کی بحالی اور 1984ء میں بھارت اور جنوبی ایشیا کے پانچ ملکوں کے ہمراہ پاکستان کی سارک میں شمولیت عمل میں آئی لیکن اس کے بعد پھر سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اس کی دو وجوہات تھیں‘ ایک افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت پر پاکستان اور بھارت کا ایک دوسرے سے بالکل مختلف مؤقف اختیار کرنا اور دوسرا‘ 1984ء میں امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل اور اکالی تخت کے خلاف بھارتی فوجی آپریشن اور اس آپریشن کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا ان کے سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں قتل اور بھارتی پنجاب میں سکھوں کی شورش۔ بھارتی حکومت نے بغیر کسی ثبوت کے الزام لگایا کہ اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اس کے بعد بھارت نے 1986-87ء میں Operation Brasstacks کے نام سے فوجی مشقوں کی آڑ میں کشمیر سے لے کر صوبہ سندھ سے ملنے والی طویل سرحد پر ہر قسم کے اسلحہ سے لیس فوج کا اجتماع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بھی فوج کا یہ سب سے بڑا اجتماع تھا کیونکہ اس میں تقریباً ڈھائی لاکھ فوجی‘ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے علاوہ ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کے ساتھ حصہ لے رہے تھے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں مسلح بھارتی افواج کے اجتماع کو دیکھ کر کہا جا رہا تھا کہ بھارت کی نیت ٹھیک نہیں اور جب سرحد پر تعینات سپاہیوں کو بھاری اسلحہ دے دیا گیا تو یہ شک یقین میں بدل گیا۔ اس موقع پر پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر کے ساتھ انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اس انٹرویو نے بھارت کے ارادوں پر پانی پھیر دیا اور بالآخر اسے اپنی جنگی مشقیں محدود کرکے سرحدوں سے اپنا ساز و سامان اٹھانا پڑا۔
شملہ معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے مابین یہ پہلا سرحدی آمنا سامنا تھا۔ اگرچہ بھارت انکار کرتا ہے‘ مگر پاکستانی اداروں اور غیر ملکی ذرائع کے مطابق اُس وقت بھارتی حملے کا حقیقی خطرہ موجود تھا۔ اس کے بعد 1989-90ء میں ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی بغاوت سے بھارتی وزیراعظم وی پی سنگھ کی حکومت نے بوکھلا کر پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی سرحدوں پر اپنی فوجوں کی صف بندی کر دی تھی اور ایک دفعہ پھر دونوں ملکوں میں جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا مگر مئی 1990ء میں صدر جارج ایچ بش (سینئر) کے سیکرٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں یہ خطرہ ٹل گیا۔ 1998ء میں پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تو سٹرٹیجک سوچ رکھنے والے ملکی حلقوں میں یہ یقین راسخ ہونے لگا کہ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے بھارت پاکستان پر روایتی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کرے گا۔ 1999ء میں نیو کلیئر ڈیٹرنس کا یہ نظریہ کسی حد تک صحیح ثابت ہوا کیونکہ کارگل کی جھڑپ نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول یا دونوں ملکوں کے درمیان طویل بین الاقوامی سرحد پر بڑی جنگ کی شکل اختیار نہیں کی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ بندی کے لیے ایک دفعہ پھر تیسری قوت کا سہارا لینا پڑا۔ وزیراعظم نواز شریف کو اس مقصد کے لیے ہنگامی طور پر واشنگٹن جانا پڑا اور صدر بل کلنٹن کی مداخلت سے یہ علاقائی تصادم ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے بچ گیا۔
کارگل کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے حقیقی خطرات 2001-02ء‘ 2008ء‘ 2019ء اور اب اپریل 2025ء میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہر بار تیسری قوت کی مداخلت سے یہ کشیدگی ایک وسیع جنگ میں تبدیل نہ ہو سکی۔ اب دونوں ملکوں اور عالمی برادری میں بھی سنجیدہ اور امن کے خواہشمند حلقے سوال کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ دنیا کے دیگر حصوں میں کل کے بدترین دشمن آج دوست بن چکے ہیں۔ جرمنی اور فرانس کے موجودہ تعلقات اور تعاون اس کی ایک مثال ہیں۔ 1956ء میں سوویت یونین اور چین کے درمیان نظریاتی اختلاف کی وجہ سے باہمی تعلقات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ 1970ء میں سوویت یونین کی طرف سے چین پر ایٹمی حملے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں مگر آج روس اور چین ایک دوسرے کے دوست ہی نہیں بلکہ امریکہ کی یکطرفہ اور جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ کیا آئے دن سرحدوں پر جھڑپیں‘ تعلقات کی معطلی اور جنگ کے خطرات صرف پاکستان اور بھارت کے مقدر میں لکھے گئے ہیں؟ ان سوالات پر بحث آئندہ کالم میں کی جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں