ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کی شرکت نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک انتہائی خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اگست 1945ء کا زمانہ نہیں‘ جب امریکہ کی طرف سے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈالنے اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اب دنیا بدل چکی ہے۔ 21اور 22جون کی درمیانی شب امریکہ نے اپنے اسلحہ خانے میں موجود سب سے جدید اور ریڈار پر نظر آئے بغیر ہزاروں کلو میٹر تک پرواز کرنے والے B-2 بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کے سب سے اہم ایٹمی مرکز پر 30ہزار پونڈ وزنی بم گرائے۔ ان بموں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زمین کے اندر 60میٹر گرائی تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں‘ اور امریکہ اس وقت واحد ملک ہے جس کے پاس اتنے طاقتور اور بھاری بم اور ان بموں کو گرانے والے جدید B-2بمبار طیارے موجود ہیں۔ امریکہ نے اصفہان اور نطنزکی جوہری تنصیبات کو ٹوما ہاک کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ایران کے جوہری مراکز پر ان حملوں کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ امریکہ کے پاس اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہے اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا جو کارنامہ امریکہ نے سرانجام دیا ہے وہ کسی اور ملک کے بس کی بات نہیں تھی۔
عالمی توازنِ طاقت کی موجودہ صورتحال کی روشنی میں صدر ٹرمپ ٹھیک کہتے ہیں۔ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے اور پوری دنیا میں سینکڑوں مقامات پر اس کی بحری‘ ہوائی اور زمینی افواج کے دستے روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے ساتھ اس کے عالمی مفادات کے تحفظ کیلئے موجود ہیں۔ اس ملٹری پاور کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطیٰ میں تعینات ہے۔ صرف مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے 19فوجی اڈے ہیں۔ ان میں بحرین کا بحری اور قطر کا فضائی اڈہ قابل ذکر ہے۔ باقی اڈے بحیرۂ روم‘ مصر‘ سعودی عرب‘ کویت اور عراق میں ہیں۔ مشرق وسطیٰ ہی میں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ موجود ہے جس کا ہیڈ کوارٹر بحرین میں ہے۔ امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کی دفاعی ذمہ داریاں بحیرۂ روم تک محدود ہیں مگر بوقت ضرورت اس کے جہازوں کو مشرق وسطیٰ میں ڈیوٹی کیلئے بحیرہ احمر میں بلایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بحرالکاہل‘ جنوب مشرقی ایشیا اور بحر ہند میں مقیم امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کو بھی مشرق وسطیٰ میں کارروائیوں کیلئے بلایا جا سکتا ہے۔حالات زیادہ خراب ہوں تو امریکہ جنوبی بحر اوقیانوس میں مقیم اپنے ایک اور بحری بیڑے کو بھی بلا سکتا ہے۔ ایران پر حملے کی تیاریوں کیلئے مشرق سے امریکہ کے ساتویں اور مغرب سے چھٹے بحری بیڑے میں شامل طیارہ بردار جہازوں کو بلایا گیا تھا ۔ یہ جہاز ابھی تک خلیج فارس‘ بحیرہ عرب اور بحر ہند کے پانیوں میں موجود ہیں۔ ہر بحری بیڑے میں طیارہ بردار جہازوں کے علاوہ ڈسٹرائیر‘ فریگیٹ‘ بارودی سرنگیں صاف کرنے والے جہازوں اور سپلائی جہازوں کے علاوہ آبدوزیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ڈین کین کے بیان کے مطابق ایران کے تین ایٹمی مراکز پر سات B-2بمبار طیاروں کے علاوہ خلیج فارس کے قرب و جوار میں مقیم آبدوزوں سے بھی حملہ کیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی طرف سے کسی ملک پر اتنی بھاری ملٹری قوت سے حملے کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کوریا‘ ویتنام اور افغانستان میں بھی جنگیں لڑی ہیں مگر ان جنگوں میں امریکی فوجی قوت کا استعمال کئی برسوں پر محیط ہے۔ مثلاً ویتنام کی جنگ تقریباً بیس برس جاری رہی اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج بھی تقریباً بیس برس تک موجود رہیں۔ ان جنگوں میں صرف کوریا میں جنرل میکارتھر نے ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس پر صدر ٹرومین نے انہیں عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ لیکن اب ایران پر حملے کے دوران امریکہ نے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں بہت زیادہ بمباری کی ہے۔ امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر جو بنکر بسٹر بم گرائے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ امریکی سٹاک میں ان کی تعداد 19یا 20 ہے۔ان میں سے14بم ایران کے خلاف استعمال کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں نطنز اور اصفہان میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو خلیج فارس اور اس کے قرب و جوار میں مقیم آبدوزوں سے ٹوما ہاک کروز میزائلوں سے بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایران‘ جس کی معیشت پہلے ہی امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے‘ کے پاس اتنی دفاعی قوت نہیں ہے کہ وہ امریکہ جیسی عسکری طاقت کا مقابلہ کر سکے‘ پھر امریکہ کو اتنا بڑا حملہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
کہا جاتا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات زیر زمین انتہائی گہرائی میں قائم کی گئی ہیں اور اتنی گہرائی میں انہیں تباہ کرنے کیلئے جو ہتھیار کارآمد ہو سکتے ہیں وہ صرف امریکہ کے پاس ہیں‘ اس لیے امریکہ کو جنگ میں کودنا پڑا۔ اصل حقیقت یہ نہیں۔ یہ صدر ٹرمپ کے اُن الفاظ سے ثابت ہوتا ہے جو انہوں نے ایران پر حملہ کرنے سے پہلے اور بعد میں ایران کے بارے میں کہے۔ انہوں نے کہا کہ چالیس‘ پینتالیس برس سے ایران کی طرف سے امریکہ مردہ باد‘ اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ اب یہ نعرے لگانے والوں کا منہ بند کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو ایران سے پرخاش صرف اس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکہ ایران کی موجودہ قیادت سے اُس تاریخی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتا تھا جو مشرق وسطیٰ میں اس کے سب سے بڑے پٹھو حکمران سابق شاہ آف ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کی وجہ سے اسے اٹھانی پڑی۔ شاہ آف ایران کے وقت تہران ایشیا میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز تھا۔تہران میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے امریکی سی آئی اے نہ صرف خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ بلکہ پورے ایشیا میں اپنی سرگرمیوں پر نظر رکھتی تھی۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں امریکہ کے سفارتخانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کے بعد وہاں سے ملنے والی دستاویز کی چھان بین سے یہ حقیقت واشگاف ہوئی کہ امریکی سی آئی اے نے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں اپنی سرگرمیوں کا جال بچھا رکھا تھا۔ 1970ء میں آیت اللہ خمینی کی وجہ سے امریکہ کے ہاتھوں سے ایران کا نکل جانا امریکہ کیلئے ایسا ہی سیاسی دھچکا تھا جیسا 1949ء میں مائوزے تنگ کی قیادت میں چین میں ایک کیمونسٹ حکومت کا قیام تھا۔ اس موقع پر امریکی صدر ٹرومین نے کہا تھا کہ یہ ایک ایسا صدمہ ہے جو کسی قوم کی سینکڑوں سال کی زندگی میں ایک دفعہ سہنا پڑتا ہے۔ امریکہ نے ایران میں حکومتی تبدیلی کی بہت کوششیں کیں۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی دنوں میں دہشت گردی کے ذریعے ایران کی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 1980ء میں عراق کی طرف سے ایران پر حملہ کرایا گیا۔ ایران کے اثاثے ضبط کیے گئے‘ اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں مگر ایران کی نئی قیادت ثابت قدم رہی۔ اب براہِ راست حملہ کرکے اور دنیا کی سب سے بڑی فوجی مشینری کو حرکت میں لاکر صدر ڈونلڈ ٹرمپ طاقت کے نشے میں سرشار امریکہ کو ناقابلِ شکست قرار دے رہے ہیں۔ اس موقع پر مجھے حبیب جالب کا وہ شعر جو انہوں نے پاکستان کے ایک حکمران کے بارے میں کہا تھا‘ یاد آ رہا ہے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا