"DRA" (space) message & send to 7575

پاک ایران تعلقات اور ترقی کے مواقع

ایران پاکستان کے چار ہمسایہ ملکوں میں سے ایک ہے لیکن قبل از مسیح زمانہ سے اُن علاقوں‘ جن پر آج پاکستان مشتمل ہے‘ کے میل جول کے نتیجے میں تہذیب‘ ثقافت‘ آرٹ‘ فنِ تعمیر‘ فلسفہ اور مذہب کے شعبوں میں ایران نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی وجہ سے ایران کو پاکستان کے ایک برادر ہمسایہ ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم ہوا تو اسے سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران ہی تھا۔ بیرونی ممالک میں پاکستان کا سب سے پہلا سفارتخانہ ایران میں قائم ہوا۔ اس لیے پاکستان اور ایران کے مابین نہ صرف حکومتی بلکہ عوامی سطح پر جو روابط قائم ہیں وہ پاکستان کے کسی اور ہمسایہ ملک کے ساتھ نہیں۔80ء کے دہائی تک دونوں ملکوں میں تجارت اور اقتصادی شعبے میں تعاون خاصا وسیع تھا لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت سے پیدا ہونے والے حالات‘ ایران میں انقلاب اور امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں اور 2001ء میں افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی طالبان کے خلاف کارروائی کی وجہ سے ایران اور پاکستان کے مابین تجارت اور معاشی تعاون کی جتنی گنجائش ہے‘ اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ حالانکہ ایران قدرتی گیس کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ تیل کے محفوظ ذخائر میں اس کا چوتھا نمبر ہے۔ اس کے علاوہ متعدد دھاتوں کے ذخائر بھی ایران میں موجود ہیں اس لیے دونوں ملکوں کے مابین نہ صرف تجارت بلکہ صنعت‘ زراعت‘ سیاحت اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کے حصول کیلئے ایک مضبوط بنیاد موجود ہے۔
حال ہی میں ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اپنے وفد کے ساتھ پاکستان کا جو دورہ کیا ہے اس میں تجارت اور اقتصادی شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کی خواہش کا خصوصی طور پر اظہار کیا گیا اور اس مقصد کیلئے دونوں ملکوں نے 12 معاہدات اور ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں۔ ان معاہدات اور ایم او یوز میں دوطرفہ تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ نیٹ ورکنگ اور کنیکٹوٹی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ دونوں ملکوں کی طرف سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ باہمی تجارت کو اس کے موجودہ حجم‘ تین ارب ڈالر سالانہ سے10 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچایا جائے گا۔ ایرانی صدر اور ان کے وفد کے ساتھ پاکستانی حکام کی بات چیت سے متعلق اہم خبروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایران نے پاکستان اور چین کے درمیان سلک روڈ انیشی ایٹیو میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور تجویز دی ہے کہ اسے یورپ تک بڑھا کر چین‘ پاکستان اور یورپ کے درمیان اکنامک کوریڈور میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ بھارت کے مغربی ساحل سے خلیجی عرب ممالک اور اسرائیل کے راستے بحیرۂ روم کے پار‘ یورپی ممالک تک انڈیا مڈل ایسٹ اکنامک کوریڈور کے منصوبے کو پروموٹ کر رہا ہے۔ اس کا مقصد نہر سویز کے متبادل زمینی اور سمندری راستے سے ایک نئی بین الاقوامی تجارتی شاہراہ تعمیر کرنا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس مجوزہ کوریڈور سے نہ صرف پاکستان بلکہ ایران اور ترکیہ کو بھی الگ رکھا گیا ہے‘ حالانکہ قدیم شاہراہِ ریشم میں ایران کو چین اور یورپ کے درمیان ایک ٹرانزٹ ملک کی حیثیت حاصل تھی۔ شاہراہِ ریشم کی تین اہم شاخوں میں سے ایک‘ جسے شاہراہِ قراقرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے‘ کے راستے چین‘ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا تجارتی مال قافلوں کے ذریعے ایران اور اس کے بعد بحیرۂ روم کے ساحل پر ترکی سے مصر تک قائم بندرگاہوں پر اتارا جاتا تھا اور پھر اس تجارتی سامان‘ جس میں ریشم کے کپڑے کے علاوہ مسالے‘ شہد‘ ہاتھی دانت اور دیگر قیمتی مصنوعات ہوتی تھیں‘ کو چھوٹے جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے یورپ کے مغربی ساحل پر واقع بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ شاہراہِ ریشم کو ازسر نو بحال کرنے کا چینی منصوبہ اس قدیم تجارتی شاہراہ کو ایک دفعہ پھر مشرق اور مغرب کے مابین نہ صرف تجارتی سامان لے جانے بلکہ تہذیبوں‘ ثقافتوں‘ معاشرتی تجربات‘ فن وہنر‘ مواصلات‘ سیاحت اور عوامی روابط کے ذریعے انسانی بنیادوں پر باہمی رواداری کے فروغ کیلئے استعمال کیا جانا ہے۔ چین اور پاکستان تو پہلے ہی اس پر متفق ہیں۔ ایران ایک مِسنگ لنک تھا لیکن اب اس نے بھی اس میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
ایرانی صدر کے دورے کے اختتام پر وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں ملکوں نے اس پر اتفاق کیا کہ خطے کے جیو پولیٹکل حالات کی وجہ سے ایک بڑی ضرورت علاقائی استحکام کا قیام ہے مگر بڑھتی ہوئی دہشت گردی اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ اس لیے پاکستان اور ایران آئندہ دنوں میں ایسے اقدامات پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے خطے خصوصاً دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کے آر پار علاقوں میں دہشت گردی کا سدباب ہو سکے۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں! کیونکہ ایران اور پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر نے مضبوط پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ ماضی میں اس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں غلط فہمیاں بھی پیدا ہو چکی ہیں‘ جن کی وجہ سے جنوری 2024ء میں ایک دوسرے پر میزائل اور بمبار طیاروں سے حملوں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن اب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے جون میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور اس کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں کی جس طرح ڈٹ کر مخالفت کی اس پر ایرانی حکومت اور عوام بہت خوش ہیں۔ ایرانی حکومت اور عوام کو یقین ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف جس طرح پہلے کسی جارحانہ منصوبے کا سہولت کار نہیں بنا اسی طرح آئندہ بھی نہیں بنے گا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ایران کے صدر کا حالیہ دورۂ پاکستان کا مقصد اس یقین دہانی کا حصول تھا کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو جوہری پروگرام پر مذاکرات کے دوران اپنے اصولی مؤقف سے دستبردار ہونے سے انکار پر دوبارہ دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ ان میں ایران کی جوہری تنصیبات پر دوبارہ بمباری کی دھمکی بھی شامل ہے۔ ایران کو پاکستان پر پورا اعتماد ہے کہ وہ اس صورت میں امریکہ کو کوئی لاجسٹک امداد مہیا نہیں کرے گا مگر خطے میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی جنگی سرگرمیاں‘ جن میں حال ہی میں منعقد ہونے والی ایک علاقائی سکیورٹی کانفرنس میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کوریلا کی شرکت بھی شامل ہے‘ نے ایران کو فکرمند کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ جنرل کوریلا اس فوجی مشن کے کمانڈر تھے جس کے تحت امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بی ٹو بمبار طیاروں اور سمندر سے آبدوزوں کے ذریعے بھاری بموں اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ ایرانی صدر نے پاکستان کی سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری قیادت‘ جن میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور ایئر فورس اور نیوی کے سربراہ شامل ہیں‘ کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا یقینی طور پر ایک مقصد پاکستان کی فوجی قیادت کو ایران کو ممکنہ طور پر درپیش خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان یقینی طور پر ان دھمکیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ دونوں ملکوں نے دوطرفہ سرحدی تجارت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان اقدامات میں بارڈر سکیورٹی میں اضافہ‘ سمگلنگ کا خاتمہ اور تمام تجارتی راستوں کو فعال بنانا بھی شامل ہیں۔
2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے ہمراہ ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کی قیادت کے ساتھ باہمی تجارت کو پانچ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچانے کے عزم کا اعلان کیا تھا مگر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد باہمی تجارت صرف تین بلین ڈالر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 10 بلین کا ٹارگٹ کیسے حاصل کیا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں