سیاست دان اس حد تک نہ جائیں

دسمبر‘ جنوری کی دھوپ بہت بڑی نعمت ہے تاہم اس نعمت کے لیے دو چیزوں کی یکجائی ضروری ہے۔ ایک دھوپ کی موجودگی دوسرے فرصت کے لمحات‘ مگر غمِ دوراں کچھ ایسا دامن گیر ہے کہ مدتوں سے فرصت کے یہ لمحات میسر نہیں‘ مرزا غالبؔ نے تو فرصت کے رات دن یاد کیے تھے۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
اسے ہماری خوش نصیبی کہیے کہ گزشتہ صبح ہمیں فرصت کے یہ لمحات اور چمکتی ہوئی سنہری دھوپ دونوں کا ملاپ اور ساتھ بیک وقت میسر آ گیا؛ تاہم یہ ساتھ ذرا سی دیر کا تھا‘ اس دوران چائے کی پیالی اور اخبارات آ گئے۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں خیالی دنیا سے واپس حقیقی دنیا میں آنا پڑا۔ اگرچہ اب وہ زمانہ نہیں کہ جب آپ کو خبروں تک رسائی کے لیے پہروں اخبارات کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اب تو ہر وقت خبریں آپ کی سماعتوں اور بصارتوں پر دستک دیتی رہتی ہیں بلکہ دخل در معقولات کی مرتکب ہوتی ہیں مگر ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا کہ ''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔ اخبار بینی کی پرانی عادت بھی نہیں چھٹتی۔ اخبارات کی ورق گردانی سے ہم دھوپ‘ فرصت کے لمحات اور تصورِ جاناں سب کچھ بھول گئے۔فواد چودھری عدالت میں رو پڑے‘ مریم نواز کی واپسی‘ عمران خان کی آصف علی زرداری کے بارے میں بیان بازی‘ اپنی اپنی پارٹیوں کے رویوں سے دل گرفتہ سیاست دانوں کا پشاور کے سیمینار سے خطاب‘ پٹرول کیلئے لمبی لمبی قطاریں‘ خوفناک مہنگائی اور 43استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کا عدالت میں جانے کا اعلان۔
فواد چودھری صاحب سے ہماری جان پہچان مبالغہ بھی کریں تو محض شناسائی تک ہے۔ چودھری صاحب! جہلم کے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جواں سال ہیں۔ جواں ہمت ہیں اور ہر وقت رواں دواں ہی نہیں رہتے بلکہ روانی سے بولتے بھی ہیں۔ عدالت میں اگر ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ہیں تو اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ شاید بیٹیوں کو یاد کرکے آنسو ڈھلک پڑے ہوں۔ شاید پولیس کے رویے پر شدتِ جذبات سے ان کی یہ کیفیت ہو گئی ہو یا کوئی اور سبب ہو‘ تاہم گردشِ ایام پر میری آنکھیں بھی قدرے نم ہو گئیں۔ بقول شاعر:
ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
چودھری صاحب کی گرفتاری کے بعد ایک اور چودھری کا بیان آیا تھا کہ ہم نے تو پی ٹی آئی والوں کو بہت سمجھایا تھا کہ مزید ایک سال پنجاب حکومت چلنے دو اور ہمیں اپنے منصوبے مکمل کرنے دو مگر انہوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ اس موقع پر انہوں نے پنجابی میں اپنی خوش بیانی سے کام لیتے ہوئے اشارہ کیا کہ اگر یہ گرفتاری پہلے ہو جاتی تو شاید ہماری حکومت ٹوٹنے کی نوبت نہ آتی۔ چودھری صاحب کا خیال تھا کہ فواد چودھری سمیت عمران خان کے دو تین ایسے ساتھی تھے کہ جو انہیں رات دن مشورے دیتے رہتے تھے کہ توڑو جی توڑو۔ چودھری صاحب جہاندیدہ بھی ہیں اور گرم و سرد چشیدہ بھی ہیں۔ ہم چودھری صاحب کی طرح ''جہاندیدہ‘‘ تو نہیں‘ سیاست کے ایک معمولی طالب علم ہیں۔ ہم نے ان کے بیان سے دو تین روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ عمران خان اپنے فیصلے کرنے میں خود کفیل ہیں۔ وہ صرف اس کی سنتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ ہم نے چودھری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی کے دیگر کئی اہم سیاست دانوں کا حوالہ دیا تھا کہ وہ صوبائی حکومتیں نہیں توڑنا چاہتے تھے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ خان صاحب نے زیادہ دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ اب پی ٹی آئی ایک طرف دو صوبوں کے صوبائی انتخابات کی تاریخ کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے اور دوسری طرف قومی اسمبلی میں اپنے 43ارکان کے استعفوں کی منظوری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جناب عمران خان نے آصف علی زرداری پر خوفناک الزام عائد کیا ہے کہ ان کے قتل کے پلان اے کی ناکامی کے بعد اب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے ان کے قتل کے لیے دہشت گردوں کو رقم دی ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ایک وڈیو میں یہ سب کچھ ریکارڈ کرا دیا ہے کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو اس کے ذمہ دار آصف علی زرداری اور دیگر وہ افراد ہوں گے جن کا اس میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ کیا خدانخواستہ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ ایک سابق صدر اور ایک اتنا ذمہ دار سیاست دان ایسی حرکت کر سکتا ہے یا انہوں نے اپنی دیرینہ روایت کے مطابق بلاثبوت الزام لگا دیا تاکہ وہ میڈیا کی شہ سرخیوں میں موجود رہیں۔ خان صاحب کو چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے پاس جو بھی معلومات ہیں‘ وہ حکومت اور عدالتِ عظمیٰ کے نوٹس میں لے آتے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہاں سے یہ خبریں یا افواہیں خان صاحب تک پہنچی ہیں۔ وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جواباً کہا ہے کہ یہ الزامات سنجیدہ ہیں‘ اس سے بھٹو خاندان کے لیے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ ماضی میں دہشت گردوں کی طرف سے انہیں اور پارٹی کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے نہ صرف خان صاحب کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ خان صاحب کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی شروع کر دی ہے۔
جناب عمران خان کو یاد ہوگا کہ انہوں نے کرپشن میں ''ملوث‘‘ سابق حکمرانوں اور اپنی پارٹی کے منحرف سیاست دانوں کے خلاف عوامی مقامات پر احتجاج کرنے کا اشارہ دیا تھا‘ یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں کے بچوں کی شادیاں نہیں ہو سکیں گی۔ لوگ ان کیساتھ سماجی روابط رکھنا نہیں پسند کریں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف ملک کے اندر ہی نہیں دیگر ممالک میں مظاہرے کیے گئے۔ پاکستان میں ان کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ خان صاحب کے چاہنے والے کچھ نادانوں نے سرکاری مہمانوں کی حیثیت سے مسجد نبوی اور روضہ رسولؐ کی زیارت کے لیے جانے والے پاکستانی وفد کے ساتھ بدتمیزی کی اور نعرے لگائے۔ پاکستانیوں کی طرف سے اس بدتمیزی کی ساری اسلامی دنیا میں شدید مذمت کی گئی تھی۔ بعد ازاں سعودی حکومت نے اس واقعہ کے بعض ذمہ داروں کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ جو بھی کہیں خوب سوچ سمجھ کر کہیں۔
مسلم لیگ (ن) والے فواد چودھری کی گرفتاری کو مکافاتِ عمل کہیں یا کچھ اور؛ تاہم ایک سیاست دان کو ہتھکڑیاں لگا کر اور سر پر چادر ڈال کر عدالت میں پیش کرنا کسی طرح مناسب نہیں‘ پی ڈی ایم کی حکومت ایسے اقدامات سے اجتناب کرے۔ مریم نواز کی پاکستان واپسی سے یقینا ان کی پارٹی کو تقویت ملے گی۔ وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں اور عوام میں مقبولیت رکھتی ہیں۔ ان کی وطن واپسی گویا ایک انداز سے پارٹی کے سپریم لیڈر نواز شریف کی پاکستان مراجعت کا سندیسہ ہے۔ ہمارے خیال میں مریم نواز کو پنجاب کے دورے پر نکلنے سے پہلے پارٹی کی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے پر کچھ وقت صرف کرنا چاہیے۔ برسوں ساتھ چلنے والے اور اہم ترین ملکی مناصب پر فائز رہنے والے سیاست دانوں کے بارے میں پارٹی قیادت کی بے رخی یا سرد مہری نہایت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ سیاسی معاملات میں سیاست دان اس حد تک نہ جائیں۔سیاستدانوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ 29جنوری کو یکبارگی پٹرول اور ڈیزل پر 35روپے فی لٹر اضافے سے لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ لوگ دہائی دے رہے ہیں کہ یہاں موت سستی اور پٹرول اور آٹا مہنگے ہیں۔ سیاستدان سیاست کے بجائے ہچکولے کھاتی معیشت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ اللہ ریاست کو ڈیفالٹ سے بچائے مگر بیچارے عوام تو ڈیفالت کر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں