نیامیثاقِ جمہوریت

میں ابھی ایک ٹی وی ٹاک شو سے واپس آ رہا ہوں۔ اس شو میں میرے علاوہ دو سینئر تجزیہ کار اور ایک ماہرِ قانون شامل تھے۔ اس ٹاک شو کی اینکر سیاسی پروگراموں کی میزبانی کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ خود بھی زیر بحث موضوعات کے بارے میں خوب مطالعہ کر کے آتی ہیں۔ آج کے اہم موضوعات ہیں‘ پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات اورچیئرمین نیب کا استعفیٰ زیر بحث آئے۔
چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا اچانک مستعفی ہونا اور وزیراعظم کی طرف سے اس کی فی الفور قبولیت کئی اَن کہی داستانوں کی طرف اشارہ کر گئی۔ مستعفی ہونے والے چیئرمین کی 21جولائی 2022ء کو تین سال کیلئے تقرری ہوئی تھی۔ آفتاب سلطان صاحب کی عمومی شہرت بہت اچھی ہے۔ وہ اس سے پہلے آئی جی پنجاب اور ڈی جی انٹیلی جنس بیورو رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر مستعفی ہوئے ہیں اور وزیراعظم نے بادل نخواستہ اُن کا استعفیٰ منظور کیا ہے؛ تاہم آفتاب سلطان کے بعض قریبی حلقوں کی طرف سے جو خبریں منظر عام پر آئی ہیں اُن سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُن پر کچھ سیاسی گرفتاریاں کرنے اور نئے مقدمات بنانے اور بعض مقدمات کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کیلئے دباؤ تھا۔
میرے لیے یہ خبر اس لحاظ سے افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے کہ ماضی میں جس طرح عمران خان کی حکومت سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کرتی رہی‘ اُن پر نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے مقدمے بنواتی رہی اس ضمن میں سابق ڈی جی ایف آئی اے کے بیانات میڈیا پر آتے رہے کہ ان پر بعض سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات بنانے اور ان کی گرفتاری یقینی بنانے کے لیے دباؤ تھا۔ اب شہباز شریف کی حکومت بھی وہی کام کرنے اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
بظاہر تو یہی خبریں تھیں کہ گرج چمک والے بے مہر موسموں کا زمانہ گزر گیا ہے اور اب کہیں سے کوئی درپردہ دباؤ نہیں ڈالا جائے گا اور نہ ہی کوئی مداخلت ہو گی؛ تاہم چیئرمین نیب کا استعفیٰ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ شاید ایسے ہی مواقع کیلئے شاعر نے کہا تھا کہ؎
نہ تم بدلے نہ ہم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں
آفتاب سلطان صاحب نے نیب افسران کی طرف سے دی گئی الوداعی پارٹی میں کچھ واضح الفاظ میں اور کچھ بین السطور باتیں کہیں۔ بہرحال انہوں نے اس موقع پر حدیثِ دل کی تان اس بات پر توڑی کہ ہمارے جملہ مسائل کا حل دستور میں موجود ہے مگر ہم دستور پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بہرحال سبب کچھ بھی ہو مگر گرداب میں گرفتار حکومت کیلئے یہ استعفیٰ بھی ایک اور بھنور ہے۔ ہمارے رویے بہت دلچسپ ہیں پہلے تحریکِ انصاف کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کی بہت جلدی تھی صبح و شام بس اُن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ان کے استعفے قبول کیے جائیں۔ اب فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ استعفے قبول نہ کیے جائیں وہ دوبارہ قومی اسمبلی میں آنا چاہتے ہیں۔ ان سے پوچھنے والا سوال تو یہی ہے کہ
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟
سیاستدانوں نے کارِ جہاں بانی کے سنجیدہ کام کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے۔ایسے میں ہمیں توقع تھی کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی جیسا سمجھدار اور مرد خلیق بند گلی کی طرف بڑھتی ہوئی پاکستانی سیاست کو واپس شاہراہ دستور پر لے جائے گا۔ اتحادی حکومت کا ان کے ساتھ خوشگوار اور مبنی بر احترام تعلق ہے اس لئے اندازہ تھا کہ وہ ملکی معاملات کو اناؤں کے تصادم کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے مگر وہ بھی اپنی پارٹی کے چیئرمین عمران خان کا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور ایک دستوری تنکے کا سہارا لے کر ''عزتِ سادات‘‘ کو داؤ پر لگا دیا۔
صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 57 (1) کو بنیاد بنا کر الیکشن کمیشن کو حکم نامہ جاری کیا کہ 9اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا ا سمبلیوں کے انتخابات کروائے جائیں۔ بادی النظر میں صدر صاحب نے جس شاخ پر آشیانہ بنایا ہے وہ بڑی ناپائیدار ہے۔ قانونی و دستوری ماہرین کا کہنا ہے کہ دستور کے آرٹیکل 48(5) کے تحت صدر کے احکامات سے جب قومی اسمبلی ٹوٹتی ہے تو وہ نوے روز کے اندر اندر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیتا ہے مگر صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کی صورت میں یہ متعلقہ گورنروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نوے روز کے اندر اندر انتخابات کی تاریخ دیں۔ آئین کے آرٹیکل 105(3) کے تحت یہ گورنروں کا استحقاق اور اُن کی ذمہ داری ہے‘ صدرِ مملکت کا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں۔
ٹی وی ٹاک شو میں یہ سوال زیرِ بحث رہا کہ کیا سیاستدان با ہمی گفت و شنید سے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا مسئلہ حل کر لیں گے؟ اس معاملے میں تقریباً سبھی تجزیہ کاروں کی یہ رائے تھی کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کی طرف جائے گا اور ہوا بھی ایسے ہی کہ سپریم کورٹ کے دو فاصل جج صاحبان نے انتخابات کے حوالے سے آئینی منشا اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دیا کہ مناسب سمجھیں تو از خود نوٹس لیں تا کہ صوبائی انتخابات کے معاملے میں آئینی تقاضوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے کا از خود نوٹس لے کر نو رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے جو جمعرات سے اس مقدمے کی سماعت کررہا ہے۔
سیاستدان جب بار بار اپنے معاملات الجھاتے اور پھر ان کے سلجھاؤ کے لیے عدالت عظمیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے اور اپنے معاملات کو خود حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ہم وہ قوم ہیں کہ جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنی تاریخ سے کچھ سیکھنا ہے نہ ہی غیروں کی تاریخ سے۔ 1971ء کی خونچکاں داستان ہمارے سامنے ہے۔ جہاں قدم قدم پر سیاستدان حکمت و دانش اور افہام و تفہیم سے کام لیتے تو مشرقی پاکستان کبھی ہم سے جدا نہ ہوتا۔ ''ادھر ہم ادھر تم‘‘ کو بھی دستوری حصار میں لا کر معاملات کو حل کیا جا سکتا تھا مگر سیاست دانوں کی اناؤں کے نتیجے میں دوطرفہ قتل و غارت گری ہوئی‘ ساری دنیا کے سامنے ہماری رسوائی ہوئی بھارت نے مشرقی پاکستان پر چڑھائی کر دی ملک دولخت ہوا اور سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا۔ 90 ہزار افراد بھارت کی قید میں چلے گئے۔ یہ سارے سانحات ہماری اس تاریخ کا عبرتناک باب ہیں جس کا عنوان ہے ''سیاستدانوں کی ناکامی‘‘۔پھر یوں محسوس ہوا کہ اتنے بڑے سانحے سے ہم نے کچھ سبق سیکھ لیا ہے۔ سیاستدانوں نے مل کر 1973ء کا متفقہ اسلامی جمہوری دستور بنا لیا جو بہت بڑی کامیابی تھی مگر 1977ء میں ایک بار پھر سیاستدان باہم دست و گریباں ہو گئے۔ اسی طرح 1980 ء کی دہائی کے اواخر اور 1990ء کی دہائی کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آپس میں لڑتے رہیں۔ بہت کچھ لٹانے کے بعد ملک کی سیاسی جماعتوں کو ہوش آیا۔ اور آپس میں میثاقِ جمہوریت طے پا گیا ایسی زود پشیمانی اور پچھتاوے کا کیا فائدہ جب چڑیاں کھیت چگ گئی ہوں۔
ٹی وی ٹاک شو کے تقریباً سبھی تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک بار پھر سیاست دان اپنے معاملات خود حل کرنے میں ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کل کلاں خدانخواستہ سیاست کی بساط لپیٹ دی گئی تو پھر بعید از قیاس نہیں کہ یہی متحارب سیاسی عندلیب مل کر آہ و زاریاں کریں گے اور کسی نئے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرتے دکھائی دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں