Walking is Life

یہ ایک انوکھا مگر نہایت دلچسپ لیکچر تھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک ایسی دنیا کی کہانیاں سنا رہے تھے جو ہمارے لیے نہایت حیران کن تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کئی مریضوں کے بارے میں بتایا کہ جو ہمارے معیارِ صحت کے مطابق بالکل تندرست تھے۔ یہ انوکھی کہانیاں برطانیہ کے بارے میں تھیں‘ مثلاً ایک مریض ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میرے گھٹنے بدل دیجئے۔ آرتھو پیڈک سرجن نے معائنے کے بعد اسے خوش خبری سنائی کہ آپ کے گھٹنے بالکل ٹھیک ہیں اور آپ کو کسی سرجری کی ضرورت نہیں۔ مریض نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب پہلے میں سات میل روزانہ پیدل چلتا تھا مگر اب میں ساڑھے چار میل کی واک کے بعد تھک جاتا ہوں۔ ایک اور مریض نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ پہلے میں اپنے کتے کے ساتھ بھاگتا ہوا پہاڑیوں پر چڑھ جاتا تھا مگر اب میں ہانپنے لگتا ہوں جبکہ میرا کتا نہیں تھکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے مریض کے ایکسرے کروائے اور دیگر آلات سے اس کا معائنہ کیا اور اسے بتایا آپ کو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں مگر مریض مُصر رہا کہ اسے نئے گھٹنوں کی ضرورت ہے۔
یہ حیران کن سچی کہانیاں یوکے میں سابق نامور پاکستانی آرتھو پیڈک سرجن احسن شمیم نے سنائیں۔ وطن کی محبت اور ماں کی شفقت انہیں واپس پاکستان کھینچ لائی۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے انہیں لندن سے واپس وطن آنے کا حکم دیا‘ جس پر ماہر سرجن نے سر تسلیم خم کر دیا۔ آرتھو پیڈک سرجن نے پندرہ بیس برس قبل واپس آ کر لاہور کے ایک بڑے ہسپتال میں کام شروع کیا تو انہیں حیرت ہوئی کہ یہاں ہر دوسرا شخص گھٹنوں اور جسم کے جوڑوں کے مرض میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹر احسن شمیم نے بتایا کہ مزید حیرانی اس بات پر ہوئی کہ یہ مریض اپنی صحت کے بارے میں بالکل لاپروا تھے اور نہ ہی انہیں جوڑوں کے درد کا بنیادی سبب معلوم تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پندرہ بیس برس کے دوران یہ بات نوٹ کی کہ یہاں کی آبادی کی بڑی تعداد اپنی صحت سے بالکل غافل ہے اور واکنگ کلچر تو یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ خوشحال لوگ خوب کھاتے ہیں مگر واک اور ایکسر سائز کی طرف نہیں آتے۔ بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ واک میں ان کی صحت کا راز پنہاں ہے تو وہ آگے سے مسکراتے ہوئے اسد اللہ غالبؔ کا یہ شعر پڑھ کر بات ڈال دیتے ہیں کہ
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ گزشتہ پندرہ بیس برس کے دوران پاکستانی مریضوں کے بارے آپ کے مشاہدات کیا ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہاں جوڑوں اور گھٹنوں کے مریض اس وقت تک آرتھو پیڈک سرجن سے رجوع نہیں کرتے جب تک کہ وہ چلنے پھرنے اور ہلنے جلنے سے عاجز نہ آ جائیں۔ اس وقت تک مگربہت تاخیر ہو چکی ہوتی ہے۔ بہت سے مریض گھٹنے بدلوانے کے بعد بھی نئی واکنگ عادات اختیارکرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ساری ہی باتیں دل کو لگتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جوڑوں اور گھٹنوں کے جملہ امراض سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ زندگی کے جس مرحلے پر بھی خیال آ جائے‘ واک کو اپنی روزمرہ روٹین کا جزوِ اعظم بنا لیا جائے۔
واقعی ڈاکٹر صاحب کی بات درست ہے کہ نئی صحت مندانہ عادات اختیار کرنا آسان کام نہیں؛ تاہم جن افراد یا اقوام نے نئی عادات اپنا لیں اور انہوں نے طرزِ کہن کو چھوڑ کر طرزِ نو اختیار کیا تو وہ ترقی و کمال کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے۔ چینیوں کے بارے میں کسی زمانے میں یہ تاثر تھا کہ وہ سست الوجود ہیں اور پھر انہوں نے نیا طرزِ عمل اپنایا تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
ہم سے پہلی جنریشن کی زندگیوں میں پیدل چلنا‘ سائیکل پر آنا جانا اور دیہاتی طرزِ زندگی تھا مگر جب سے ہم نے شہری اور مشینی طرزِ حیات اختیار کیا ہے‘ تب سے ہم ایسے امراض کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ہماری دادی محترمہ صبح سویرے دودھ بلونے‘ بھینسوں کو چار ڈالنے‘ تنور میں روٹیاں پکانے سمیت رات گئے تک مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہتی تھیں۔ ان سے جب بھی کہا جاتا کہ آپ اتنے سارے کام نہ کریں تو ان کا جواب ہوتا کہ کیا آپ مجھے معذور بنانا چاہتے ہیں۔ ہر وقت ان کے لبوں پر یہی دعا ہوتی کہ یا اللہ! چلتے پھرتے مجھے اپنے پاس بلا لینا۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور وہ 90برس کی عمر میں پیدل اپنے بیٹے کے گھر سے اپنے بھائی کے گھر گئیں اور وہیں چار پائی پر لیٹے لیٹے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئیں۔
آج واکنگ کے بہت فوائد گنوائے جاتے ہیں‘ ذاتی تجربات پر جاری کردہ بعض طبی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ صرف 30منٹ کی روزانہ واک سے کرشمانہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس واک سے آنکھوں کی بینائی تیز ہوتی ہے‘ شوگر کنٹرول ہوتی ہے، وزن کم ہوتا ہے اور عمر بڑھتی ہے۔ ایک دلچسپ فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیر کے دوران انسان کی تخلیقی صلاحیتوں میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ قدرتی ماحول میں گھومنے پھرنے سے شاعروں‘ سائنسدانوں اور فلسفیوں وغیرہ کو نئے نئے آئیڈیاز سوجھتے ہیں۔ واکنگ کے دوران ہی ورڈز ورتھ کو حسنِ فطرت کے قدرتی نظاروں کے دوران جھولتے ہوئے پھولوں نے بہت متاثر کیا اور انہوں نے اپنی شہرہ آفاق نظم Daffodils تخلیق کی۔ واکنگ تخلیقات کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ کالم کی تنگ دامنی اس تذکرے کی اجازت نہیں دیتی۔
گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ہمارے انگلش کے استاد اور بعد ازاں اسی کالج کے پرنسپل پروفیسر غلام جیلانی اصغر نے لاجواب انشائیے تخلیق کیے ہیں۔ ان میں سے اکثر مضامین دورانِ سیر ان کے خیال میں آئے۔ ان کے ایک انشائیہ کا عنوان تھا ''پیدل چلنا‘‘۔ یہ دلچسپ اور شگفتہ مضمون اس مصنف نے تخلیق کیا تھا کہ جو خود روزانہ کئی کئی میل واک کرتا تھا۔ ایک بار میں کئی سالوں کے بعد بیرونِ ملک سے پاکستان سرگودھا میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اس وقت تک وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ میں نے پوچھا: Sir do you still have long walks? ‘اس کے جواب میں انہوں نے کہا: Yes my boy, I still walk and I think that one fine morning I will walk into my grave اور پھر ایسا ہی ہوا۔پروفیسر غلام جیلانی نوے برس کی عمر میں 2006ء میں فوت ہوئے۔ آخری سانس تک ان کی واک جاری تھی۔
ڈاکٹر احسن شمیم سے اپنے گھٹنوں کے تفصیلی معائنے اور ان کی معلومات افزا گفتگو کے بعد میں نے گھٹنوں کے آپریشن یا عرف عام میں گھٹنے تبدیل کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب مزاجاً Perfectionist ہیں۔ میں پانچ روز تک ان کے ہسپتال میں رہا۔ ہر مریض کا وہ خود آپریشن کرتے ہیں۔ آپریشن کے بعد جتنے دن مریضوں کا ہسپتال میں قیام رہتا ہے‘ اتنے روز ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ ایک ایک مریض کے کمرے میں جاتے ہیں۔ مریض کی صحت یابی رفتار کا جائزہ لیتے ہیں اور حسبِ ضرورت ادویات میں تبدیلی کراتے ہیں۔ جس بات نے مجھے بے حد متاثر کیا‘ وہ یہ ہے کہ جس طرح وہ خود نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ہیں‘ یہی رویہ اور کلچر ان کے پورے عملے کا بھی ہے۔ ڈاکٹر احسن شمیم کے لیکچر کا لب لباب یہ ایک جملہ تھا: Walking is life۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں