لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

برسوں سے وطنِ عزیز میں غریبوں کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ گزرتے مہ و سال کے ساتھ یہ تلخی ٔایّام بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ دو برس کے دوران ملک کے کروڑوں لوگ کیسے زندہ ہیں‘ یہ وہ جانتے ہیں یا ان کا خدا جانتا ہے۔ ممتاز شاعر عرفان صدیقی مرحوم نے ہر حال میں زندہ لوگوں کے بارے میں کمال کی منظر کشی کی ہے۔ کہتے ہیں ؎
ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
یہی حیرت آج شہرِ ستمگر کو ہے۔ یہ حیرت اس لیے ہے کہ گزشتہ چار پانچ برس کے دوران ہر امیرِ شہر نے غریب کشی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ پہلے آبادی کا ایک مختصر حصہ غربت اور مہنگائی کا شکار ہوتا تھا مگر اب جو قیمتوں کا حال بلکہ حشر ہے‘ اس کی وجہ سے غریب تو بے موت مارا ہی گیا ہے‘ سفید پوش بھی اس جینے کے ہاتھوں مر چلے ہیں۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین شرح فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ پانچ دس فیصد مہنگائی کا تذکرہ سننے میں آتا تھا مگر اب دل تھام کر سنیے کہ مہنگائی 46 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مفت آٹے کی سکیم بنائی اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا مگر اس کیلئے جتنے گہرے ہوم ورک کی ضرورت تھی وہ نہیں کیا گیا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس وقت تک تقریباً 8افراد حصولِ آٹا کے ہڑبونگ کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 39.3 فیصد لوگ شدید غربت کا شکار ہیں۔ اس وقت جو مزدور مہینے میں 30ہزار روپے کما رہا ہے‘ وہ کیسے زندہ ہے؟ آبادی سے دور کہیں کسی کچی پکی بستی میں کم از کم 6ہزار روپے میں ایک کمرہ ملتا ہے۔ اس کا پانی‘ بجلی کا خرچہ ملا کر کم از کم 6ہزار اور شامل کریں اور 3ہزار آمد و رفت کا خرچہ جمع کریں تو کل پندرہ ہزار بنتے ہیں‘ باقی بچے 15ہزار۔ پانچ چھ افراد پر مشتمل کنبے کے لیے 15ہزار میں بمشکل قوتِ لایموت بھی مہیا نہیں ہوتی۔ بچوں کی تعلیم‘ علاج معالجہ اور کسی ایمرجنسی کیلئے ان کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں بچتی۔
پاکستان کے معاشی حالات ایسے تو کبھی نہ تھے جہاں پر ہماری حکومتوں نے آج پہنچا دیے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں غریب عوام کا تذکرہ تو بہت کرتی ہیں مگر غربت کو راحت میں بدلنے کیلئے جس سوچ بچار اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ اس کی طرف توجہ دینے کیلئے کسی حکومت کے پاس نہ وقت ہے‘ نہ فرصت اور نہ ہی ارادہ ہے۔ کچھ تو معاشی حالات بھی پریشان کن ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کی کہیں رِٹ بھی موجود نہیں۔ ایک ہی مارکیٹ میں ایک چیز ایک دکان پر 130روپے میں فروخت ہو رہی ہے اور دوسری دکان پر وہی چیز 180روپے میں بک رہی ہے۔ کوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والا ادارہ نہیں۔ ادارہ تو یقینا ہوگا مگر ادارے کے پُرعزم اتھارٹی والے کارکن کہیں دیکھنے میں نہیں آتے۔ جناب عمران خان غریب بچوں کو ان کی ضرورت کے مطابق کم از کم خوراک میسر نہ ہونے کو بہت اجاگر کیا کرتے تھے مگر اپنے پونے چار سالہ دورِ حکومت میں انہوں نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
غربت کا مسئلہ کوئی ایسا ناقابل حل بھی نہیں۔ اگر کوئی حکومت اس مسئلے کی طرف کماحقہٗ توجہ دے اور اس کیلئے مناسب منصوبہ بندی کرے تو چند سالوں میں بدحالی کو خوشحالی میں بدلا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اگرچہ ہنرمندی کو ہم اپنے نصابِ تعلیم کا حصہ تو نہیں بنا سکے؛ تاہم اسے مناسب منصوبہ بندی کے تحت اپنے نوجوانوں کو سکھا سکتے ہیں اور انہیں معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنا سکتے ہیں۔ ایسا فرد جو گھر بیٹھے بیٹھے ہزاروں نہیں‘ لاکھوں تک کما سکتا ہے مگر ایسی کوئی پلاننگ ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ہماری حکومتوں کی اوّل و آخر ترجیح لوگوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگانا‘ اپنے حکومتی اختیارات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا اور حزبِ اختلاف کو نیچا دکھلانا ہے۔ فنی مہارت تو ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ ہی نہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں کوئی نیا ہنر سیکھنے کی کوئی اُپج ہی نہیں۔ نوجوان گھنٹوں سوشل میڈیا پر ضائع کرتے ہیں مگر انٹر نیٹ پر دستیاب مفت کورسز سے استفادہ کرنے اور آئی ٹی کے ذریعے پُرکشش آمدنی کے حصول کیلئے محنت کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ حکومتیں جو کام کرنے پر آمادہ نہیں‘ وہی کام ہماری بعض فلاحی تنظیمیں بطریقِ احسن انجام دے رہی ہیں۔ وہ پہلے نوجوانوں کو کمپیوٹر اور آئی ٹی کی مفت تربیت دیتی ہیں‘ کورس کے مکمل ہونے پر ان کیلئے آن لائن روزگار کا بندوبست بھی کرتی ہیں۔ ظاہر ہے ان فلاحی اداروں کا یہ کام محدود ہے۔ اصل حیرت تو یہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر صاحبِ احساس شخص غریبوں کی بے بسی اور بے کسی پر تڑپ اٹھتا ہے‘ یہی طرزِ عمل درد مند فلاحی تنظیموں کا بھی ہے‘ مگر حکومتیں اتنی بے حس اور سنگ دل کیوں ہو جاتی ہیں کہ انہیں غریب کے جینے مرنے کی کوئی پروا نہیں ہوتی؟
فواد حسن فواد ہمارے ملک کی بیورو کریسی کی معراج پر پہنچے۔ وہ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں ان کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ پھر گردشِ ایام نے انہیں جیل تک پہنچایا مگر وہ جیل سے سرخرو ہو کر نکلے اور ان کے خلاف لگایا گیا ہر الزام غلط ثابت ہوا۔ ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات جیل میں ہی ہوئی تھی۔ اس وقت مجھے اتنا اندازہ تو تھا کہ وہ صاحب ِعلم آدمی ہیں مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ غزل اور نظم کے صاحبِ طرزشاعر ہیں۔ شاعری شدتِ احساس کے بغیر نہیں ہوتی۔ ان کے کلام کا مجموعہ ''کنجِ قفس‘‘ منظر عام پر آ چکا ہے۔ ان کے شعری مجموعے کو اگر ایک مصرع میں بیان کرنا ہو تو میں یہ کہوں گا ع
مجھ کو احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے
ان کا ہر شعر شدتِ احساس کا نگینہ ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والے شخص کو غریب کے دکھ درد کا بھی پوری طرح احساس ہے۔ اُن کا یہ شعر تو موجودہ حالات پر بالکل صادق آتا ہے کہ؎
امیرِ شہر تو سالوں کے زائچے دیکھے
غریبِ شہر کا دن بھی بسر نہ ہو پائے
ہفتہ کے روز مفت آٹا سکیم دو اور جانیں لے گئی۔ مظفر گڑھ میں آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے کے بعد ایک 60سالہ خاتون پاؤں تلے آ کر کچلی گئی۔ اسی طرح بھکر میں ایک 66سالہ بزرگ سارا دن قطار میں کھڑا رہا‘ جب اس کی باری آئی تو اسے آٹے کا تھیلا تو مل گیا مگر اس کے حصول کیلئے اسے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 193 ممالک میں جو گیارہ ممالک بدترین مہنگائی کا شکار ہیں‘ ان میں ایک پاکستان بھی ہے۔ دنیا میں ہمارا تاثر یہ جا رہا ہے کہ پاکستان نہ صرف بدترین غربت کی زد میں ہے بلکہ انتظامی طور پر بھی بدترین قسم کی بدنظمی کا شکار ہے۔
سیاست سے لاکھ دامن بچائیں مگر بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ ایک طرف جناب عمران خان کہتے ہیں کہ ملک نہ سنبھالا تو سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا‘ دوسری طرف وہ موجودہ مرکزی حکومت سے بات چیت پر بھی آمادہ نہیں۔ ملک میں معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام اوّلین شرط ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی اصلاحات پر عمل کرکے اعتماد بحال کرے۔ معیشت کو مہنگائی‘ سست شرح نمو اور توازن ادائیگی جیسے بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
ہماری مالی و انتظامی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ ہم چند ہزار لوگوں میں پُرامن طریقے سے تیس چالیس ہزار تھیلے تقسیم نہیں کر سکے۔ اس وقت تک تقریباً آٹھ دس افراد مفت تھیلا حاصل کرتے کرتے اپنی جاں گنوا بیٹھے ہیں۔ حکومت غریبوں کے صبر و رضا کا اور کتنا امتحان لے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں