پاکستان میں استحکام کب آئے گا

ہر پاکستانی کی کتنی سچی اور پرانی خواہش ہے کہ پاکستان میں استحکام ہو۔ کیا ''استحکامِ پاکستان پارٹی‘‘ کے قیام سے ملک کو استحکام نصیب ہو جائے گا؟ پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ''استحکام‘‘ ہے کیا؟ جن ملکوں میں سیاسی استحکام ہے اُن کے اور ہمارے درمیان فرق کیا ہے؟
استحکام یہ ہے کہ ملک میں ہر ادارہ‘ چھوٹا بڑا‘ اپنے اپنے دائرے میں طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دے رہا ہو۔ عسکری ادارے دفاعِ وطن اور داخلی استحکام کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں۔ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق انصاف کر رہی ہوں‘ ججز عدل و انصاف کے راستے میں پسند اور ناپسند کو آڑے نہ آنے دیں۔ کسی امیر اور طاقتور کے رعب میں نہ آتے ہو۔ سیاسی استحکام کی سب سے اہم دلیل یہ سمجھی جاتی ہے کہ طے شدہ اصول و ضوابط کی روشنی میں حکومتیں قائم اور رخصت ہوں۔ نہ ایک دن اوپر نہ ایک دن نیچے۔ انتخابات کا انعقاد مقررہ تاریخ پر ہو اور نتائج کا اعلان بروقت کر دیا جائے۔
امریکہ‘ یورپ اور ایشیا و افریقہ کے جن ممالک میں سیاسی استحکام ہے وہاں انتخابات‘ اُن کے نتائج کا اعلان اور حکومتوں کا قیام وغیرہ معمول کی کارروائی کے طور پر غیر محسوس طریقے سے انجام پاتا ہے۔ البتہ ہمارے جیسے ممالک‘ جن میں استحکام مفقود ہوتا ہے وہاں ہر انتخاب ایک نیا ہنگامہ یا سانحہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر قیادت 1947ء میں مسلم لیگ نے تخلیقِ پاکستان ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی‘ مگر بابائے قوم کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی پاکستانی سیاستدانوں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔ تو بیورو کریسی اور مقتدرہ کو مداخلت کا موقع مل گیا۔ 1947ء سے 1957ء کے درمیانی دس برس میں دو نہیں‘ دس حکومتیں بنیں اور ٹوٹیں۔ 1958ء میں ایوب خان نے ملک گیر مارشل لاء لگا دیا تو سیاستدان کوئی مزاحمت نہ کر سکے کیونکہ وہ آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف تھے۔ انہوں نے کسی نہ کسی طرح 1956ء کا دستور تو بنا لیا تھا مگر اس پر یک جان ہو کر عملدرآمد نہ کرا سکے۔ اس لیے جنرل ایوب خان کو مارشل لاء لگانے کا موقع مل گیا۔ بڑے بڑے سیاست دانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر اکثر سیاستدان اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں پر معافی مانگ کر اور سیاست سے تائب ہو کر جیل سے رہا ہوتے رہے۔ ایوب خان دورِ حکومت میں ایک مصنوعی استحکام کا تاثر دیا گیا‘ امریکی حکومت سے بڑے قریبی تعلقات قائم ہوئے اور قوم کو 1962ء کا ون مین شو صدارتی دستور عطا کیا گیا۔ مگر وطنِ عزیز کو استحکام نصیب نہ ہوا۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی جماعتوں نے ایک اتحاد قائم کر لیا اور بی ڈی سسٹم کے خلاف اور ون مین ون ووٹ کیلئے زبردست تحریک چلائی۔ جب یہ تحریک کامیابی سے ہم کنار ہونے لگی تو اقتدار پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے قبضہ کر لیا۔ جنرل یحییٰ خان نے اسلامی نظام کے قیام اور براہِ راست انتخابات کی نوید سنائی۔ 1970ء میں یہ انتخابات تو ہو گئے مگر اس کے نتیجے میں آئین کے مطابق انتقالِ اقتدار نہ ہو سکا اور یوں قائداعظم کا پاکستان دولخت ہو گیا۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
اس زمانے کے باقی ماندہ مغربی پاکستان کے بہت سے بالغ نظر اور دانش مند سیاستدانوں نے ماضی کی پہاڑ جیسی غلطیوں پر اظہارِ ندامت تو کیا مگر لکیر پیٹنے کے بجائے آگے بڑھنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ دینے پر مکمل اتفاق کیا۔ یوں بھٹو صاحب وزیراعظم بن گئے۔ ان کی سربراہی میں 1973ء کا اسلامی جمہوری دستور بھی متفقہ طور پر قومی اسمبلی نے منظور کر لیا اور اسے نافذ بھی کر دیا مگر پھر بھی ملک کو استحکام نصیب نہ ہو سکا‘ سبب اس کا یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مستحکم جمہوری و انتخابی کلچر قائم کرنے کے بجائے دوسری سیاسی پارٹیوں کے بعض قائدین اور اپنی پیپلز پارٹی کے ''باغیانہ‘‘ خیالات رکھنے والے پہلی اور دوسری صف کے بعض لیڈروں کو سبق سکھانے کیلئے بہت سے ماورائے آئین و قانون اقدامات کیے۔ یوں ''آل پاور فل‘‘ منتخب وزیراعظم ہونے کے باوجود بھٹو صاحب پاکستان کو استحکام دے سکے اور نہ ہی اپنی جان بچا سکے۔ ماورائے قانون و آئین جانے کی بنا پر انہیں اس انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اگلے گیارہ سال ایک عسکری حکومت کا راج جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں رہا۔
1990ء کی دہائی کے سیاستدان بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی آتی جاتی حکومتیں بھی عوام کی دیرینہ خواہش پوری نہ کر سکیں اور یوں قیام پاکستان کے 53 برس بعد بھی پاکستان کو استحکام نہ مل پایا۔ اس دوران تقریباً نو برس تک پرویز مشرف ملک کے حکمران رہے۔ اللہ اللہ کرکے 2008ء سے ایک بار پھر سیاسی حکومتوں کا قیام ممکن ہوا۔ پہلے پانچ برس زرداری صاحب کی اور پھر 2013ء سے میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دوران پاکستانی سیاست کے افق پر عمران خان ایک نئے کھلاڑی کی حیثیت سے اُبھرے۔ 2018ء میں وہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے۔ انہوں نے رول آف لاء‘ اعلیٰ جمہوری روایات اور ریاستِ مدینہ کے خواب دکھائے مگر انہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کئی ہولناک اقدامات کیے۔ خان صاحب نے نو مئی کے روز ملک کو ایک خوفناک سانحے سے دوچار کر دیا۔ ان کی پارٹی کے کارکنوں نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ایسا خوفناک واقعہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ یوں ایک بار پھر پاکستان استحکام سے محروم رہا۔ آج ایک طرف عدالتِ عظمیٰ کی دہائی ہے کہ عدالتی دروازے پر احتجاج انصاف میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ عدالت نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہر چیز زبردستی نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف بدھ کے روز آرمی چیف نے کہا کہ شہدا کی یادگاروں اور جناح ہاؤس کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جلد کٹہرے میں لا کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ آرمی چیف نے یہ بھی اعلان کیا کہ سانحہ نومئی کے ماسٹر مائنڈز کی گرفت کا وقت آ گیا ہے۔
ہماری درد ناک کہانی کا عنوان یہ ہے کہ 75برس میں پاکستان استحکام حاصل نہیں کر سکا۔ بالعموم ہر انتخاب کے بعد یا آٹھ دس برس کے بعد ملک ایک نئے حادثے یا سانحے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا استحکامِ پاکستان پارٹی کے قیام سے پاکستانی عوام کی دیرینہ خواہش یعنی استحکامِ پاکستان پوری ہو سکے گی۔ نہیں‘ ایسا نہیں۔ جب تک پاکستانی سیاستدان سنجیدگی‘ بالغ نظری آئین و قانون کی سربلندی اور پارلیمانی روایات کی پابندی کو اپنا شیوہ نہیں بنائیں گے اس وقت تک خاکم بدہن پاکستان عدم استحکام سے ہی دوچار رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں