لائیو نسل کُشی

ماضی میں انسانوں کی نسل کشی اور انہیں اجتماعی طور پر صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے واقعات اب ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ انسانیت کے خلاف اتنے بھیانک جرائم کے بارے میں کچھ فلمیں بھی بنی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی کروڑوں کی تعداد میں انسان مارے گئے۔ اس وقت انسانیت کہیں غاروں میں روپوش ہو گئی تھی اور حیوانیت کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا تھا‘ مگر آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہایت حیران کن ہے۔ اسرائیل گزشتہ تقریباً چار ہفتوں سے غزہ کے شہریوں پر رات دن بمباری کر رہا ہے۔ اس کی زمینی اور بحری فوجیں بھی محصور شہر پر تین اطراف سے گولہ باری کر رہی ہیں۔ اسرائیلی طیارے تاک تاک کر ہسپتالوں کو مریضوں سمیت نشانہ بنا رہے ہیں۔ غزہ کے 35ہسپتالوں میں سے تقریباً 17ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں‘ کہ جن میں بھوکے پیاسے بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں نے پناہ لی ہوتی ہے‘ ان پر بھی کئی کئی ٹن وزنی بم گرائے جا رہے ہیں۔
اسرائیل منگل سے لے کر جمعرا ت تک جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر روزانہ بمباری کر چکا ہے جس میں تقریباً چارسو فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ یہ درندگی ساری مہذب دنیا لائیو دیکھ رہی ہے۔ یہ لائیو شیطانی کھیل عالمی طاقتیں بھی دیکھ رہی ہیں مگر ان کی بے حسی عروج پر ہے۔ نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کسی عالمی اصول و ضابطے کو مانتا ہے نہ انسانی اقدار کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی اسے یو این او‘ سکیورٹی کونسل یا عالمی عدالتِ انصاف سے کوئی ڈر خطرہ ہے۔ جب تک اسے عالمی طاقت امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی حاصل ہے‘ وہ یہ شیطانی عمل جاری رکھے گا۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے فراہم کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق شہید فلسطینیوں کی تعداد نوہزار سے زائد ہو چکی ہے جن میں چار ہزار بچے اور 2250سے زائد خواتین شامل ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم حماس کے چند ہزار مجاہدین کو نشانہ بنانے کی نہیں‘ غزہ کے 25لاکھ شہریوں کو ان کے بڑی محنت سے بنائے ہوئے گھروں سمیت ملیا میٹ کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ اب تو اسرائیل کے بعض ترجمان علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ وہ غزہ کو فلسطینیوں کا قبرستان بنا دیں گے۔ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ غزہ کس کا قبرستان بنے گا مگر یہودیوں کا دعویٰ یہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسرائیل نے دس اور گیارہ اکتوبر کو غزہ میں وائٹ فاسفورس والے بم بھی استعمال کیے تھے۔
گزشتہ دو تین روز کے دوران دنیا کے سامنے ایسی ہولناک وڈیوز بھی آ چکی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ ایک وڈیو میں غزہ میں داخل ہونے والے یہودی فوجی کچھ فلسطینی نوجوانوں کو گھیر کر لاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہیں۔ پھر انہیں ایک ایک کرکے آگے دوڑایا جاتا ہے اور پھر انہیں گولی مار کر پہاڑی سے نیچے دھکا دے کر گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ باقاعدہ لاشیں بن جاتے ہیں اور کچھ زندہ لاشیں ہوتے ہیں کہ جو کراہ رہے ہوتے ہیں مگر سنگدل یہودی فوجی ان کے حلق میں پانی کی چند بوندیں تک نہیں ٹپکاتے۔ یہ سارے ہولناک مناظر ''مہذب‘‘ دنیا کے حکمران دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ کے بعض باضمیر شہریوں‘ کہ جن میں مسیحی‘ یہودی‘ مسلمان اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں‘ نے اسرائیل کی بھرپور مذمت اور فلسطینیوں کی زبردست حمایت کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ امریکہ کے کسی شہر میں خطاب کرنے گئے تو امریکی شہریوں نے کھڑے ہو کر اسرائیل کی مذمت کی اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ساری مغربی دنیا میں فلسطینیوں کی حمایت میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ نکل کر زبردست مظاہرے کر رہے ہیں اور ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ نوم چومسکی جیسے کئی امریکی دانشور مغربی طاقتوں کی بے حسی پر شدید تنقید کر رہے ہیں‘ تاہم یہ مغربی حکمران اسرائیل کے ظالمانہ اور انسانیت کش کھیل میں اس کے مکمل حمایتی اور پشتیبان ہیں۔ اسرائیل کی محبت یا اپنی سیاسی مصلحت کی بنا پر انہیں کوئی پروا نہیں کہ عالمی امن کے لیے وضع کردہ قوانین پامال ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران ایک بڑی ہولناک حقیقت اجاگر ہو کر سامنے آئی ہے کہ قیامِ امن کے لیے 193ملکوں کی مشترکہ یو این او اپنا کردار ادا کرنے میں برُی ناکام رہی ہے۔ اس بار دنیا نے لائیو دیکھا کہ ''مہذب دنیا‘‘ کے انسانی حقوق کے سارے ادارے نمائشی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سائنسی چکا چوند کے باوجود مغرب عدل و انصاف اور انسانیت کے حوالے سے ابھی پتھر کے زمانے میں ہے۔ آج ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
اب ذرا اپنی دنیا کی طرف آئیے۔ مسلم اور عرب دنیا کی او آئی سی اور عرب لیگ جیسی تنظیموں نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو سخت مایوس کیا ہے۔ کسی اسلامی یا عرب ملک نے اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ 1973ء میں ایک طرف مصری فوجوں نے فلسطین کی حمایت میں جنگ کی تو دوسری طرف شاہ فیصل شہید نے امریکہ اور کئی یورپی ممالک کیلئے تیل کی سپلائی بند کر دی تھی۔ آج ہمارے عرب بھائی پہلے سے زیادہ امیر ہیں مگر ابھی تک صرف بحرین نے اسرائیل سے اپنے سفیر کوواپس بلایا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سوائے دو تین کے باقی سارے عرب اور اسلامی ممالک کے حکمران فلسطینیوں کے قتلِ عام کے بارے میں لاتعلق ہو گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق عرب امارات اسرائیل کے ساتھ اڑھائی ارب ڈالر اور ترکی ساڑھے آٹھ عرب ڈالر کی تجارت کرتا ہے جبکہ نائیجیریا‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا اور ازبکستان وغیرہ کے بھی اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط استوار ہیں مگر ابھی تک ان ممالک میں سے کسی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی یا تجارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔
اسلامی دنیا میں یمن واحد ملک ہے کہ جس نے اسرائیل کو للکارا ہے۔ اگرچہ یمن کے اپنے حالات ساری دنیا پر عیاں ہیں مگر تاریخ میں اس کا نام لکھا جائے گا کہ جب دیگر اسلامی ممالک منقارِ زیر پر تھے تو یمن نے حدیث نبویﷺ کے مطابق اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر تے ہوئے جسدِ واحد ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ ہمارے کچھ دانشور حضرات حماس پر تنقید کرتے ہیں کہ اس نے مذاکرات کے بجائے جنگ کا آپشن کیوں اختیار کیا۔ ان حضرات سے گزارش ہے کہ وہ فلسطین کی 1936ء سے لے کر 1948ء تک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اسرائیل نے ان بارہ برسوں میں ہر طرح کے مذاکرات ٹھکرا کر برطانوی فوجوں کی مدد سے فلسطینی بستیوں کو بندوق کی نوک پر خالی کروایا۔ فلسطینیوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کرکے لاکھوں کو ان کے اپنے ملک سے نکال باہر کیا۔ یہی کچھ اسرائیل اوسلو معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک کر رہا ہے۔
فلسطین پر اپنے قبضے کے ابتدائی برسوں میں اسرائیل نے جو کچھ دنیا کی نگاہوں سے قدرے اوجھل ہو کر کیا تھا‘ آج وہی کچھ وہ علی الاعلان کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کا ضدی رویہ صاف بتا رہا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے نہ اپنے قیدیوں کی سلامتی۔ مغربی دنیا ہو یا اسلامی دنیا‘ فیصلہ کر لے کہ آج اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی لائیو نسل کشی میں وہ تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہیں یا غلط سمت پر؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں