کتاب میلہ

کالم کا عنوان پڑھ کر قارئین چونکے تو ہوں گے کیونکہ ان دنوں لاہور میں کہیں کوئی بک فیئر نہیں‘ جس کتاب میلے کا کالم نگار ذکر کر رہا ہے۔ وہ کہاں ہے؟ دراصل گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران مصنف دوستوں کی محبتوں اور ناشرین کی نوازشوں سے میرے گھر کی سٹڈی میں اچھے بھلے کتاب میلے کا سماں پیدا ہو گیا ہے۔ جدھر دیکھتا ہوں اُدھر کتابیں ہی کتابیں ہیں۔ ان کتابوں کی دید میرے آتشِ شوق کو بھڑکاتی اور میری محرومی کو بڑھاتی رہی۔ ابھی تین چار روز پہلے لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر درپیش تھا۔ میں نے سوچا تین چار کتابیں ہمراہ رکھ لیتا ہوں راستے میں ان کتابوں پر سرسری نظر ڈالنے اور ورق گردانی کا موقع مل جائے گا اور یوں احباب کے سامنے میری سرخروئی کا کچھ سامان ہو جائے گا۔ سردیوں کی رو پہلی دھوپ چمک رہی ہو اور موٹروے پر دونوں طرف فضائے سبز گوں دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ رہی ہو۔ اس سبز گوں لینڈ سکیپ میں مٹیالی پگڈنڈیوں کا حسن جلوہ گر ہو تو ایسے میں تارِ نظر توڑنے کا یارا کس کو ہوگا؟تاہم باہر کی دنیا سے ناتا توڑ کر میں نے جو پہلی کتاب اٹھائی تو جہانِ دیگر نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ میر تقی میر نے کہا تھا کہ :
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
لہٰذا سرسری ورق گردانی کی پالیسی کامیاب نہ ہوئی۔جاڑے کے چھوٹے دن اور لمبی راتیں ان چار میں دو کتابوں کی پُرلطف رفاقت میں گزرے۔یہ خوبصورت کتابیں ایسی ہیں کہ ہر کتاب پر ایک ایک کالم لکھنے سے بھی ان کے محاسن کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے میں نے یہی سوچا ہے کہ ان دو کتابوں کا تعارف کروا دیا جائے اور پھر تشنگانِ علم و ادب خود ہی کنویں تک پہنچ جائیں گے۔
''قافلے دل کے چلے‘‘ اس کتاب کے مصنف جناب الطاف حسن قریشی ہیں۔ یہ قریشی صاحب کے قلم کا اعجاز ہے کہ ان کی تحریر کی جو رعنائی اور دلربائی آج سے کم و بیش 65برس پہلے تھی‘ آج بھی ویسی دلکشی بھرپور اثر انگیزی کیساتھ قاری کے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہ نثر نگاری نہیں ساحری کرتے ہیں۔ یہ کتاب سفر نامۂ حجازِ مقدس ہے۔قریشی صاحب شاہ فیصل کی دعوت پر پہلی بار 1967ء میں حج کی سعادت حاصل کرنے ارضِ مقدس گئے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی بار حج‘ عمرے اور انٹرویوز کیلئے سعودی عرب گئے۔''قافلے دل کے چلے‘‘ میں قریشی صاحب نے اپنے روحانی تجربات اور عمیق مشاہدات کو اس طرح قلم بند کیا ہے کہ حرمین شریفین کے مشتاقان ِدید کا شوقِ سفر فزوں تر ہو جاتا ہے۔طواف کعبہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے قریشی صاحب لکھتے ہیں ''پانچویں چکرمیں میری رفتار اور بھی تیز ہو گئی‘ پھر خیال آیا کہ آدابِ عشق کے خلاف ہے‘ لیکن قدم ٹھہرتے ہی نہ تھے۔ شاید رسم ِعشق میں ایک ایسا بھی مقام آتا ہے جب عاشق کو اپنے اوپر اختیار نہیں رہتا۔ حسن کی طرح وہ بھی بے کنار ہو جاتا ہے۔ بندش کی ہر زنجیر سے آزاد‘ خود ہی تیشہ خود ہی فرہاد‘‘۔قریشی صاحب کی خوش بختی کا اندازہ لگایئے کہ انہیں مرقد ِرسول ﷺ کے اندر جانے کا اذنِ خاص عطا ہوا۔ مسجد نبوی میں روضۂ مطہرہ کے اندر جانے اور وہاں سلام بحضور سرورِ کائناتﷺ پیش کرنے کی وارداتِ قبلی کو قریشی صاحب یوں بیان کرتے ہیں: ''ہم حضورؐ کے سرِاقدس کی طرف بڑھے۔ جالی کا دروازہ کھلا اور محافظ نے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا‘ جونہی اندر قدم رکھا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بجلی کا شدید جھٹکا لگا ہو۔ سامنے دیوار نظر آئی جس سے لپٹ لپٹ کر میں دھاڑیں مار کر رونے لگا اور سرورِ کونین سے ایک ہی التجا کرتا رہا کہ روزِ محشر اللہ تعالیٰ سے شفاعت فرمانا اور میرے اعمال سے صرفِ نظر کرنا کہ وہ میری شرمساری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں نے اپنی نعت سُروں میں پڑھنا شروع کی اور جب اس شعر تک پہنچا کہ :
بہت بے تاب ہے اُس کی غلامی کے لیے‘ لیکن
خبر بھی ہے تجھے ناداں تقاضائے وفا کیا ہے
تب اچانک مجھ پر بے ہوشی طاری ہوتی گئی۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہ رہا۔ ہوش آیا تو میں مسجد نبوی کے صحن میں لیٹا ہوا تھا‘‘۔''قافلے دل کے چلے‘‘ایسی قلبی وارداتوں سے مزّین ہے جو قارئین کے دلوں کی دنیا بدل بھی سکتی ہیں۔ قریشی صاحب کے مشاہدات کی گہرائی اور وسعت کو ان کے حسنِ بیان نے چار چاند لگا دیے ہیں۔
دوسری کتاب جسے میں نے ڈوب کر پڑھا ہے اس کا ٹائٹل ہے ''دیارِ صبحِ بہار‘‘ یہ سوویت یونین کا سفر نامہ ہے۔ اس کے مصنف حمیر ہاشمی ہیں۔ فیض احمد فیضؔ مرحوم اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ایک طرف ایک دنیا ان کی گرویدہ تھی تو دوسری طرف ان کی بیٹیاں اور داماد صرف فیض صاحب کے حوالے سے نہیں پہنچانے جاتے بلکہ ان کی اپنی پہچان الگ ہے۔ حمیر ہاشمی فیض صاحب کی چھوٹی بیٹی منیزہ کے شوہر ہیں۔1973ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں نفسیات کا مضمون پڑھا رہے تھے۔ دورانِ ملازمت ہی وہ چھٹی لے کر امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے چلے گئے۔ انہوں نے امریکہ سے دوبارہ ایم اے نفسیات کی ڈگری حاصل کی۔ زیر نظر کتاب میں منیزہ اور حمیر ہاشمی کا تذکرہ ملتا ہے جو انہوں نے ایک خاص مقصد کیلئے 1986ء کے موسمِ گرما میں اختیار کیا تھا۔ فیض احمد فیض کی وفات کے بعد ان کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ انہیں اپنے ابا کے بارے میں فلم بنانی ہے۔ وہ ان مقامات کی عکس بندی کرنا چاہتی تھیں جہاں جہاں فیض صاحب کا قصۂ دوستاں موجود تھا۔ باہمی صلاح مشورے سے انہوں نے فیض صاحب کی کتاب ِزندگی کی عکس بندی کی ابتدا سوویت یونین سے کی کیونکہ وہاں سے شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں اور دانشوروں سے ان کی صحبتیں طویل عرصے تک رہیں۔بلادا فرنگ اور امریکہ کے بارے میں تو آپ کو درجنوں سفر نامے مل جاتے ہیں‘ مگر سوویت یونین کے بارے اس طرح کی کتابیں کم ہی لکھی گئی ہیں۔ 1986ء میں جب منیزہ اور حمیر ہاشمی سوویت یونین کے دورے پر گئے اُس وقت تک یہ ایک مکمل طور پر اشتراکی دنیا تھی۔ اس لحاظ سے یہ سفر نامہ بڑا پُرکشش ہے کہ اس میں قاری کو ماسکو‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور قازقستان وغیرہ کے بارے میں وہ معلومات ملتی ہیں جن تک پڑھنے والے کی اس سے پہلے رسائی نہ تھی۔ سوویت یونین کے بارے میں جن مقامات اور شخصیات کا ہم نے نام سن رکھا ہے سفر نامہ نگار نے انکا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ ان مقامات میں نامعلوم سپاہی کی ماسکو میں یادگار‘ وار اینڈ پیس کے مصنف ٹالسٹائی کا گھر اور گور کی پارک شامل ہیں۔ مشہور کمیونسٹ ادیب عبداللہ ملک اس سفر نامے کے مقدمہ میں لکھتے ہیں '' سوویت یونین میں بھی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں ملیں گی لیکن یہ کسی فرد کی ملکیت نہیں۔یہ بین الاقوامی صنعتی اجارہ داریوں کے دفاتر نہیں اور نہ ہی کروڑ پتیوں کی رہائش گاہیں ہیں۔ یہاں سوویت یونین میں نفع اندوزی نہیں۔ ایک خاص قسم کی خاموشی اور سکون ہے۔ اس سکون کو سوشلزم کے مخالفین بھی پہناتے ہیں کہ یہاں لوگ خوفزدہ رہتے ہیں اور گھروں سے باہر نہیں نکلتے...‘‘جب عبداللہ ملک یہ لکھ رہے تھے اس وقت ''اجتماعی ملکیت‘‘ کا یہ غیر فطری نظریہ اپنے آخری سانس لے رہا تھا اور اسکی جگہ لینے کیلئے مارکیٹ اکانومی اور پرولتاری آمریت کی جگہ لینے کیلئے عوامی جمہوریت پر تول رہی تھی۔ گوربا چوف کی صدارت کے دوران 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گئی اور وسط ایشیائی ریاستیں خود مختار ہو گئیں۔اب ہر ریاست کا اپنا آزادانہ نظام حکومت ہے۔ حمیر ہاشمی کا تحریر کردہ یہ سفر نامہ معلومات کا خزینہ ہے۔ کتاب کا اسلوب ِبیان اتنا پُرکشش اور دلچسپ ہے کہ ایک بار شروع کر لیں گے تو پھر پڑھتے چلے جائیں گے۔ بسم اللہ کیجئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں