ایک میرے محترم دوسرے عزیز دوست ہیں

گزشتہ تین چار ہفتوں سے ہمارے آسمانِ صحافت کے دو درخشندہ ستارے اپنی اپنی تجلیات سے قومی اخبارات کے صفحات کو منور فرما رہے۔ یہ دونوں حضرات نہایت واجب الاحترام ہیں۔ دونوں صاحبان درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اب صحافت یا میڈیا ان کی جولاں گاہ ہے۔ دونوں شخصیات کی کہی گئی یا لکھی گئی بات کو کان لگا کر نہایت انہماک سے سنا اور توجہ سے پڑھا جاتا ہے۔
جناب عرفان صدیقی صحافت کے ساتھ ساتھ اب کئی برس سے عملی سیاست میں ایک دانشورانہ اور ناصحانہ (ایڈوائزری) کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ جناب سہیل وڑائچ صحافت کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے سپر سٹار ہیں۔ دو اڑھائی دہائیوں سے ایک مقبول عام و خاص پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ یہی ان کی مرکزی پہچان ہے‘ مگر اب وہ اپنے مخصوص و منفرد انداز میں کالم بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالموں کوبھی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔
قومی نوعیت کی ایک اہم بحث جناب عرفان صدیقی اور جناب سہیل وڑائچ کے درمیان نہایت جوش و خروش کے ساتھ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ وڑائچ صاحب کا خیال ہے کہ سیاسی تلخیوں کو بھلا دینا چاہئے۔ ان کی رائے میں یقیناً عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے بڑے‘ چھوٹے لیڈروں کو پسِ دیوارِ زنداں بھیجا‘ ان کے خلاف ناروا رویہ اختیار کیا اور انہیں نامناسب القابات سے پکارا‘ مگر اب میاں نوازشریف کو وسیع الظرفی سے کام لیتے ہوئے ان تکلیف دہ باتوں کو فراموش کر دینا چاہئے اور عمران خان سے درگزر کا رویہ اختیار کرنا چاہئے‘ جبکہ جناب عرفان صدیقی نے عمران خان کے 1999ء سے لے کر 2018ء تک کے سیاسی سفر کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ ''تحریک انصاف کے سوکھے دہانوں پر جب بعض جرنیلوں کی برکھا برسی تو فصل چھائونیوں کی چھائوں تلے پروان چڑھنے لگی۔‘‘ صدیقی صاحب نے عمران خان کیلئے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔کالم نگار کے دلائل کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ اپنے پونے چار سال کے اقتدار کے دوران عمران خان نے سیاسی فراست‘ کشادہ ظرفی اور افہام و تفیہم کا ادنیٰ سا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ تک نہ ملایا۔ جناب عرفان صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ دانشورانِ عصر ِحاضر غلط آدمی‘ نوازشریف سے مخاطب ہیں۔ اگر عمران خان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائے اور 9مئی کے واقعات کو اپنی ٹوپی میں سرخاب کا پر سمجھتے ہیں تو پھر صفائی کیسے ہوگی۔
میں نے جناب عرفان صدیقی صاحب کے ''ماضی پر خطِ تنسیخ پھیرنے‘‘ کے سلسلے میں ان کے نقطۂ نظر کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کا اس موضوع پر پہلا کالم7نومبر کو قومی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ اس کے اگلے روز 8نومبر کو سہیل وڑائچ صاحب نے حضرت بابا بلھے شاہ کا ایک شعر مستعار لیتے ہوئے لکھا کہ قومی مفاہمت وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے عمران خان کے ساتھ عفوو درگزر کے معاملے کو شدت ِاحساس‘ شدت ِ جذبات اور جوابی دلائل سے مرصع کرکے تحریر کیا۔
بابا بلھے شاہؒ کا یہ شعر تھا:
تسی اُچے تہاڈی ذات اُچی‘ تسی اُچے شہر دے رہن والے
اسی قصوری‘ ساڈی ذات قصوری‘ اسی قصور شہر دے رہن والے
سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے پہلے کالم میں اپنا نقطۂ نظر یوں واضح کیا ہے''حالانکہ کھلاڑیوں نے 9مئی کو پہاڑی غلطی کی۔ یہ قصور وار صحافی تو ساتھی صحافیوں کے ساتھ بار بار جا کر کھلاڑی خان کو کہتا رہا کہ سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کرو مگر اس نے یہ بات نہ مانی۔9مئی کا سانحہ ہوا یہ بہت بڑی غلطی ہے مگر کیا اس کے بدلے میں ساری پی ٹی آئی کو مار دیا جائے؟‘‘ سہیل وڑائچ صاحب کے اس کالم کے جواب میں جناب عرفان صدیقی نے پھر ایک اور جوابی کالم تحریر کیا جس کا عنوان تھا کہ ''نوازشریف سے نہیں چابی برداروں سے رجوع کیا جائے‘‘ غرضیکہ گزشتہ تین ہفتوں سے دونوں طرف سے جواب الجواب کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں صاحبان کا نقطۂ نظر واضح ہے۔ وڑائچ صاحب قومی مفاہمت کی ترویج کے حوالے سے عمران خان کیلئے معافی تلافی چاہتے ہیں جبکہ عرفان صدیقی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ خان صاحب اور پی ٹی آئی سے سر زد ہونے والے جرم کی نوعیت ایسی ہے کہ اس سلسلے میں معافی تلافی کا معاملہ میاں نوازشریف کے ہاتھ میں نہیں کلید برداروں کے ہاتھ میں ہے۔ جواب الجواب لکھتے ہوئے تحریر میں تندی و تیزی اور تلخی کا درآنا بھی فطری بات ہے۔
قومی نوعیت کی یہ تلخ و تُرش بحث اب قدرے ناخوشگوار رنگ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دونوں حضرات کا صحافی حلقۂ احباب ایک ہی ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ تمام صاحبان شدت اختیار کرتی اخباری بحث سے خوش نہیں ہو رہے ہیں۔ عربی زبان کا مقولہ ہے کہ تلوار کا لگایا ہوا زخم بھر جاتا ہے مگر الفاظ کا لگایا ہوا زخم مندمل ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔بحث مباحثے اور جواب الجواب میں الفاظ میں طنز کی آمیزش ہو جانا قدرتی امر ہے۔ میرے جیسے ہزاروں طالبانِ صحافت و سیاست کو انتظار تھا کہ جناب عرفان صدیقی صاحب غزہ پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کے بارے میں اپنے سابقہ سلسلۂ مضامین ''افغان باقی کہسار باقی کی طرح‘‘ اسرائیلی چہرہ دستیوں اور اہلِ فلسطین کی بے پناہ قربانیوں کے بارے میں یاد گار کالم تحریر کریں گے‘ مگر ملکی محاذ پر سرگرم ہونے کی بنا پر شاید انہوں نے فلسطینی بھائیوں کے 75سالہ طویل قصۂ غم اپنے اثر انگیز اسلوب میں بیان نہیں کیا۔ اسی طرح ملکی ہی نہیں عالمی سیاست کے اُتار چڑھائو پر گہری نظر رکھنے والے جناب سہیل وڑائچ بھی غالباً ''جواب الجواب‘‘ والی مصروفیات کی بنا پر فلسطینی ٹریجڈی کے بارے میں کوئی کالم نہیں لکھ سکے۔
اس وقت ہماری قومی زندگی کے اہم ترین مضوعات میں نوجوانوں میں پائی جانے والی عمومی مایوسی‘ معیشت کی ناگفتہ بہ صورتحال اور سیاسی عدم استحکام ہیں۔یہ موضوعات بھی ہمارے سینئر کالم نگاروں اور رجحان ساز فکری دانشوروں کی توجہ کے طالب ہیں۔
جناب عرفان صدیقی کے ایک ادنیٰ خوشہ چیں اور نیاز مند کی حیثیت سے اور جناب سہیل وڑائچ سے بردارانہ تعلقِ خاطر کی بنا پر یہ درخواست کروں گا کہ ان کی صحافیانہ بحث میں بعض پہلو ایسے بھی موجود ہیں جن کے بارے میں میاں محمد بخش ؒ کا یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ع
خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
24نومبر کے تحریر کردہ اپنے کالم ''جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے‘‘ کے آخر میں سہیل وڑائچ صاحب نے لکھا ہے''آخر میں عرض یہ ہے یہ کالمانہ مکالمہ ہرگزگندے کپڑے سرعام دھونے کیلئے نہیں‘‘ مگر یہ بحث سمیٹنے کی بجائے پھیلتی جا رہی ہے اور کچھ حضرات بھی اس تندو تیز اختلافِ رائے میں حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ میرا عاجزانہ مؤقف بھی یہی ہے کہ سرعام گندے کپڑے دھونے سے اجتناب کرنا چاہئے اس بحث کا موضوع محض چند روزہ یا چند سالہ نہیں بلکہ ہمارے 75سالہ تاریخی نشیب و فراز پر محیط ہے۔
صحافتی دنیا کی دونوں سینئر شخصیات سے میری درد مندانہ درخواست ہوگی کہ وہ ''کالمانہ مکالمہ‘‘ کے بجائے ایک خوشگوار ماحول میں صرف مکالمہ کریں۔ میری رائے میں یہ مکالمہ جناب مجیب الرحمن شامی کی صدارت میں ہو۔ تاریخی نوعیت کے ایک برادرانہ مکالمے کی میزبانی کے لیے لاہور میں ہمارا غریب خانہ حاضر ہے۔ ہمارے لیے یہ شرف ِمیزبانی ایک اعزاز ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں