دو خاندانوں کی حکومتیں

کئی روز تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ سطحی قیادت اور دونوں پارٹیوں کی ڈائیلاگ کمیٹیوں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ہمارا خیال تھا کہ زلفِ یار کی طرح دراز ہوتی ہوئی ملاقاتوں میں فوکس اس بات پر ہوگا کہ ہم اپنے اپنے منشوروں میں عوام سے کیے گئے وعدے کیسے پورے کریں گے۔
'' فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘ کی یاد تازہ کرتے ہوئے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو ''ایگریمنٹ ایٹ مڈ نائٹ‘‘ سامنے آیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اصل مسئلہ انتخابی وعدوں کا نہیں اقتدار کی بندر بانٹ کا تھا۔ اس معاہدے کی رُو سے مرکز میں بھٹو خاندان کی سیاست وراثت کے موجودہ سربراہ آصف علی زرداری ایک بار پھر صدرِ پاکستان ہوں گے جبکہ شریف خاندان کے سیکنڈ سینئر رہنما میاں شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شریف خاندان کے سربراہ اور پارٹی کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے یا اس اعزاز سے محروم کر دیے گئے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان میں کبھی ایک خاندان تختِ شاہی پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو کبھی دوسرا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں خاندان مل کر برسراقتدارکو بانٹ لیتے ہیں۔ البتہ اس بار ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ پیپلز پارٹی وفاق میں مسلم لیگ( ن) کو قائد ایوان منتخب ہونے کیلئے ووٹ تو دے گی مگر وہ وزارتیں نہیں لے گی۔ گویا جب آئی ایم ایف کے مطالبوں پر وفاقی حکومت مہنگائی کے مزید جان لیوا تازیانے عوام پر برسائے گی اور جب عوام سے کیے گئے حسین وعدے پورے نہیں ہوں گے تو اس کی براہِ راست ذمہ داری مسلم لیگ (ن) کے سر پر آن پڑے گی۔ اسی لیے بعض تجزیہ کاروں اور گرم سردچشیدہ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ بندوبست میں پہلے میاں نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے، اور اب مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ہے۔
جہاں تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس اور صوبے کی معاشی بدحالی کا تعلق ہے تو اس سے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔مگر پنجاب میں تو گڈ گورننس کے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوگی۔ اس منظرنامے میں مسلم لیگ (ن) کو تین بڑے چیلنجز کا کرنا سامنا ہوگا۔ پہلا چیلنج تو یہ ہے کہ مانگے تانگے کی ''اکثریت‘‘ والی وفاقی حکومت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہو گی۔ کسی وقت بھی پیپلز پارٹی کسی مصلحت بینی اور ''دوراندیشی‘‘ کی بنا پر اور ایم کیو ایم اپنی متلوّن مزاجی کے سبب (ن) لیگ کے پاؤں تلے سے قالین کھینچ سکتی ہے۔
ہمیں کوئٹہ اور اسلام آباد کے بعض باخبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان سے منتخب ہونے والے اپنے ممبران اسمبلی سے ان کے صوبے کی حکومت سازی کے سلسلے میں کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے جب ان ممبران نے آدھی رات والا پیپلز پارٹی کے ساتھ بلوچستان کی مخلوط حکومت کا اعلان سنا تو وہ فوری طور پر اسلام آباد پہنچے‘ انہوں نے پارٹی قیادت کے سامنے اپنے تحفظات پیش کیے۔
اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے ممبرانِ بلوچستان اسمبلی نے بھی اسلام آباد میں اپنی قیادت کے سامنے بلوچستان حکومت میں شمولیت کے فوائد و ثمرات اور ضروریات بیان کیں جس کے نتیجے میں جے یو آئی کے سینئر نائب صدر نے( ن) لیگ کے رہنما اسحق ڈار سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ڈار صاحب نے مولانا حیدری صاحب سے کہا کہ ''بہت دیرکی مہرباں آتے آتے‘‘۔گویا بلوچستان کی مخلوط حکومت کے بارے میں مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ 'مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘۔
مسلم لیگ (ن) کی شخصی حکومت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج معاشی ہے۔ پاکستان کی معیشت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔ نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے فوری طور پر چھ ارب ڈالر درکار ہوں گے جس کیلئے اسے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑے گی ۔ دوسری طرف جیل سے بانی پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیاہے کہ وہ اس وقت تک پاکستان کو قرضہ نہ دیں جب تک وہ دھاندلی والے حلقوں کا آڈٹ نہ کرا لیں۔ پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ پاکستان کے سیاسی و معاشی حلقوں میں نہایت نامناسب سمجھا جا رہا ہے‘ پاکستان کے ذمے 126بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ واجب الادا ہے۔ ماہِ نومبر میں پاکستان کو 27بلین ڈالر قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی میں واپس کرنے ہوں گے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں تاکہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ گزشتہ چار پانچ ماہ سے بجلی کے ٹیرف اور اُن کے ساتھ ٹیکسوں کی بھرمار اور اب فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 7.13روپے فی یونٹ اضافے نے تو انڈسٹری میں مزید مایوسی پھیلا دی ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے حالیہ بیان کے مطابق توانائی بحران کی وجہ سے سینکڑوں سپننگ‘ویونگ اور پروسیسنگ یونٹ بند ہو چکے ہیں۔
مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ان حالات میں اگر 25 میں سے 15 کروڑ آبادی زندہ ہے تو یہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ دسمبر‘ جنوری میں تیس‘ پینتیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے غریب گھرانوں کی بجلی کا بل دس‘ بارہ ہزار اور گیس کا بل بلامبالغہ بیس ہزار روپے سے اوپر تھا۔ لاکھوں خاندانوں نے سود خوروں سے قرضہ لے کر اور خواتین نے اپنا اکلوتا زیور بیچ کر بل ادا کیے۔ میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2017ء کی قیمتیں واپس لائیں گے جب آٹا 35 روپے کلو اور چینی 50 روپے کلوتھی۔اسی طرح پنجاب کیلئے( ن) لیگ کی نامزد کردہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ وہ خدمت کے نئے ریکارڈ قائم کریں گی۔ انہوں نے ا بھی حال ہی میں اپنے روڈمیپ کا اعلان کرتے ہوئے عوام کو خوشخبری سنائی کہ وہ نہ صرف مہنگائی کم کریں گی بلکہ بہترین گورننس لائیں گی۔ یہ سارے وعدے محدود ذرائع اور آئی ایم ایف کی لٹکتی تلوار کے سائے میں کیسے پورے ہوں گے؟شریف فیملی غالباًسب سے بڑے خطرے کا کماحقہٗ ادراک نہیں۔
2024ء کے انتخاب میں جس طرح سے لوگوں نے عمران خان کو ہمدردی کا ووٹ دیا ہے وہ حیران کن ہے۔ اس عوامی ٹرینڈ کے سامنے بڑے بڑے الیکٹ ایبلز ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ اس بار تحریک انصاف بغیر نشان‘ بغیر قائد اور بغیر انتخابی مہم کے میدان میں اُتری اور زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس انتخاب میں پی ٹی آئی کی حمایت اُن وکیلوں‘ نوجوان اور بزرگوں کو حاصل ہوئی جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ اسمبلیوں کے ممبر بنیں گے ۔ان کم وسیلہ امیدواروں نے کروڑوں یا لاکھوں نہیں ہزاروں بھی اپنی انتخابی مہم پر خرچ نہیں کیے تھے۔ اس ٹرینڈ نے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کیلئے نئے مواقع کے ابواب وا کر دیے ہیں۔
2018 میں خود پی ٹی آئی میں بھی الیکٹ ایبلز کی بہتات تھی۔ مال و متاع سے محروم نان الیکٹ ایبلز کی ایک بڑی تعداد کا ایوانوں میں پہنچنا تحریک انصاف کی انقلابی سوچ یا منصوبہ بندی کا نہیں بلکہ گزشتہ ایک سال کے حالات کا کرشمہ ہے۔ آگے چل کر پی ٹی آئی ''عام آدمی پارٹی‘‘ ثابت ہوتی ہے یا نہیں مگر یہ ٹرینڈ گویا ایک اعتبار سے خاندانی حکومتوں کیلئے خطرے کی بہت بڑی گھنٹی ہے۔ شریف خاندان کیلئے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر شریفوں کی مرکز اور پنجاب میں حکومتیں غریب نواز پالیسیاں اختیار کر کے زبردست پرفارمنس دینے میں ناکام رہتی ہیں تو پھر شاید یہ ناکامی اُن کی خاندانی تخت نشینی کیلئے آخری موقع ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں