مولانا بہت ناراض ہیں!

مولانا فضل الرحمن شہنشاہِ دلیل و خطابت ہیں۔ وہ ناسازگار حالات کے باوجود غیر کی محفل میں بھی انجمن آرائی کا ہنر خوب جانتے ہیں‘ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بار مولانا بہت خفا ہو کر جادۂ احتجاج پر چل پڑے ہیں؟ بقول اسد اللہ غالب ؔ
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
جہاں تک ان کے روایتی حلیفوں کا تعلق ہے‘ وہ اپنی نجی محفل میں معصومیت کے ساتھ بقول میر محمد بیدارؔ یہ سوال کرتے سنائی دیتے ہیں:
آج کیا ہے کہو کیوں خفا بیٹھے ہو
اپنی کہتے ہو نہ میری ہی میاں سنتے ہو
کوئی جانے یا نہ جانے مگر ہم مولانا کی ناراضی کا سبب کسی حد تک جانتے ہیں۔ چلئے اس راز میں آپ کو بھی شریک کیے لیتے ہیں۔ انتخابات سے قبل مولانا مستقبل کے منظرنامے میں اپنے لیے بڑا جامع کردار دیکھ رہے تھے۔ مولانا کے بعض قریبی ذرائع نے ہمارے اندازے کی تصدیق کی ہے کہ مولانا کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایوانِ صدر میں جلوہ افروز ہونے کے واضح اشارے ملے تھے۔
مولانا نے ان اشاروں کو سچ جانا۔ جے یو آئی کے صدر خیبرپختونخوا میں ایک اور ہی انتخابی منظرنامہ دیکھ رہے تھے جس میں پی ٹی آئی کیلئے اتنی بڑی کامیابی کا امکان نہ تھا‘ لہٰذا خیبرپختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ بھی اُن کے خیالوں میں رونق افروز تھی۔ بلوچستان کی حکومت میں بھی مولانا وزارتِ اعلیٰ نہ سہی مگر اپنی جماعت کیلئے ایک کلیدی کردار دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے مولانا نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے اپنے علاوہ اپنے دو صاحبزادوں اور دو بھائیوں کو بھی میدان میں اتارا تھا۔ جبکہ مولانا نے اپنے ہی خاندان کی دو خواتین کو قومی اسمبلی کیلئے بھی نامزد کیا تھا۔ مگر جب وہ شاخ ہی ہری نہ ہوئی جس پر مولانا نے اتنے آشیانے بنانے کا سوچ رکھا تھا۔ اپنی امیدوں اور اندازوں کے شیش محل کو یوں چکنا چور ہونے پر مولانا کا غم و غصہ بجا ہے۔
مولانا نے جب یہ دیکھا کہ اُن کے دیرینہ حلیفوں کو مرکز اور اپنے اپنے صوبوں میں حسبِ منشا کردار سونپ دیا گیا ہے اور جے یو آئی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے تو اُن کی آتشِ غضب میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ مولانا اس بات پر بھی بہت رنجیدہ تھے کہ اُن کے حلیفوں نے اپنے صوبوں میں تو کامیابی کو مینج کر لیا مگر مولانا کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بلوچستان اسمبلی کی 65سیٹوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کو17‘ مسلم لیگ (ن) کو 16اور جمعیت علمائے اسلام کو 12سیٹیں ملیں۔ یہاں دونوں بڑی پارٹیوں کو مولانا سے اپنے دیرینہ تعلقات اور ان کے وزنی مینڈیٹ کی قدر افزائی کرنی چاہیے تھی۔ مگر وہاں بھی دونوں بڑی پارٹیوں نے آپس میں اقتدار بانٹ لینے اور مولانا سے مکمل بے اعتنائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب جے یو آئی کے نائب صدر مولانا عبدالغفور حیدری نے مسلم لیگ (ن) کے اسحق ڈار سے رابطہ کیا تو انہوں نے شانِ بے نیازی سے کہا:
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
صرف یہی نہیں‘ اُن کے دوستوں نے مولانا کی تالیفِ قلب کو بھی ضروری نہ سمجھا۔ مولانا کو ناراضی و خفگی کے حصار سے باہر آ کر نہایت گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنا چاہیے کہ اُن کی انتخابی ناکامی کے اسباب کیا ہیں۔ قومی اسمبلی میں اُن کی جماعت کو پندرہ‘ بیس سیٹوں کے بجائے چار‘ پانچ سیٹیں اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں صرف 9 سیٹیں کیوں ملیں۔ ہمیں یہ بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ خیبر پختونخوا میں انتخابی مہم کے دوران اُن کی جماعت کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی جماعت کے زعما کے انتخابی قافلوں پر ریموٹ کنٹرول اور خودکش حملے کیے گئے۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں بھی جے یو آئی کے عوامی اجتماعات اور اُن کی گاڑیوں کو اسی طرح کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔31 جولائی 2023ء کے روز جے یو آئی کو بدترین قسم کے حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں 54 مظلوم انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مولانا نے انتخابی مہم کے دوران ہی افغانستان کا دورہ کیا۔ وہاں ان کی افغانی وزیراعظم اور دیگر زعما سے ملاقاتیں ہوئیں مگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو پاکستان میں روکنے کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہ کرائی گئی۔
مولانا کو پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے نئے حالات کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں دیوبندی مکتبِ فکر کی پذیرائی کی بنیاد پر جمعیت علمائے اسلام کو سیاسی کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے‘ تاہم داخلی اور بین الاقوامی طور پر 'سیاسی اسلام‘ کی دانشورانہ اور جدید جمہوری طریقہ کار کے ذریعے ترویج کی بنا پر بھی پاکستان میں روایتی دیوبندی سیاست کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ مڈل کلاس کو اسلامی نظامِ سیاست کی طرف مائل کرنے میں مولانا مودودی نے چار دہائیوں تک اپنے لٹریچر اور جماعت اسلامی کی دینی و سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے مڈل کلاس کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف راغب کر لیا ہے۔ برصغیر کے سیاسی میدان میں تقریباً دو دہائیوں تک دیوبندی علمائے کرام ہی سرگرم عمل رہے ہیں۔ اگرچہ اُن کے دینی فلسفۂ سیاست اور سیکولر اندازِ سیاست کے درمیان بُعدالمشرقین تھا‘ تاہم وہ سیکولر جماعتوں کیساتھ اپنی سیاسی و انتخابی کامیابی کیلئے اتحاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔
حالیہ چند برسوں میں تحریک لبیک پاکستان کی صورت میں روایتی طور پر سیاست سے گریزاں بریلوی مکتبِ فکر ایک بڑے چیلنج کی حیثیت سے میدانِ انتخاب میں نمایاں ہوا ہے۔ 2024ء کے انتخابی معرکے میں تحریک لبیک نے بہت سی سیٹوں پر دوسرے یا تیسرے نمبر پر آ کر اپنے وجود کا بھرپور احساس دلایا ہے۔ اس سے پہلے بریلوی سیاست صرف کراچی اور حیدر آباد وغیرہ تک محدود تھی۔ ملکی سطح پر وجود میں آنے والے بعض بڑے دینی اتحادوں میں اس زمانے کی بریلوی سیاسی جماعتوں نے پُرجوش شمولیت اختیار کی تھی مثلاً 2002ء میں بننے والی متحدہ مجلسِ عمل نے بے مثال کامیابی حاصل کی تھی۔مولانا فضل الرحمن کو اس پہلو سے بھی غور و فکر کرنا چاہیے کہ دینی بنیاد پر وجود میں آنے والے اتحاد جلد ہی ٹوٹ کیوں جاتے ہیں؟ اگر دینی سیاسی جماعتیں وہ جماعت اسلامی ہو یا جمعیت علمائے اسلام‘ اسی طرح تحریک لبیک پاکستان ہو یا جمعیت علمائے پاکستان۔ ان مذہبی جماعتوں کو سوچنا چاہیے اگر 2024ء میں وہ کسی دینی اتحاد میں یکجان ہوتیں تو نتائج بالکل مختلف ہوتے۔
مولانا ایوانوں اور اہم اداروں میں یکساں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں انہیں احتجاجی سیاست ترک کرکے ایک مدبر پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے قانون سازی میں زبردست کردار ادا کرنا چاہیے۔ مولانا کو سب سے پہلے ایک ایسے ضابطہ انتخاب کی تشکیل کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دینا چاہیے جس میں کوئی سیاسی پارٹی یا مقتدرہ کسی طرح کی مداخلت نہ کر سکے۔ 2024ء کے انتخابات میں قبل از الیکشن اور الیکشن کے دوران جس طرح کی مداخلت کے مناظر دیکھنے میں آئے اس سے ہمارے جمہوری چہرے کی کوئی اچھی تصویر دنیا کے سامنے نہیں آئی۔
عین ممکن ہے کہ مولانا کا غم و غصہ ان کی کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہو۔ ہمارے اندازے کے مطابق بالآخر مولانا کی اپنی سابقہ حلیف جماعتوں اور مقتدرہ کیساتھ صلح ہو جائے گی۔ مولانا کا ہر ایوان میں نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اب بھی یہی امکان ہے کہ مولانا کی ناراضی دور کرنے کیلئے انہیں کوئی اہم کردار سونپ دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ کردار صدر جے یو آئی کے شانِ شایان تو شاید نہ ہو گا مگر مولانا شجر سے پیوستہ رہ کر امیدِ بہار پر قناعت کر لیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں