مریم نواز سے وابستہ توقعات

یہ درست ہے کہ مریم نواز میاں نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران اپنی سیاسی و جماعتی سرگرمیوں سے خود کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب کا اہل بھی ثابت کیا ہے۔شریف فیملی اور فیملی سے باہر کے اکثر لیگی قائدین کو جب پسِ دیوارِ زنداں پہنچا دیا گیا تو مریم نواز نے عوامی محاذ سنبھال لیا۔ ان مراحل میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے اپنی خطیبانہ جرأتِ اظہار کا لوہا منوایا۔ اس دوران جیل کی کال کوٹھڑی مریم نواز کا بھی مقدر ٹھہری تو انہوں نے قید و بند کے مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
مریم نواز کے لیے دو بڑے چیلنج ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ان سے پہلے اُن کے چچا کی بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب ''شہباز سپیڈ‘‘ کا بہت چرچا تھا۔ اب انہیں اس سپیڈ اور روایتی اقدامات سے بڑھ کر کچھ کر دکھانا ہو گا۔ اُن کے لیے دوسرا چیلنج یہ ہے کہ ایک روایتی معاشرے کے ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون کو ثابت کرنا ہو گا کہ عورت اپنی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کے اعتبار سے نہ صرف مردوں کے ہم پلہ ہوتی ہے بلکہ اُن سے بھی آگے بڑھ کر کچھ کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے۔
مریم نواز کی بحیثیت وزیراعلیٰ پہلی تقریر کی اس لحاظ سے بہت پذیرائی ہوئی کہ وہ انتقام کی نہیں افہام و تفہیم کی پالیسی اختیار کریں گی اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گی۔اس پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے مریم نواز سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین کی رہائی کے لیے کوشش کرنے کا اعلان بھی کریں۔ خاتون وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنا تفصیلی ایجنڈا بھی افتتاحی خطاب میں پیش کیا۔ جس میں کرپشن پر زیرو ٹالرنس‘ ہیلپ لائنز پر رابطۂ عوام‘ دانش سکولوں کا قیام‘ ہونہار طلبہ کا دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں داخلہ اور نوجوانوں کو بلاسود قرضے وغیرہ جیسے نکات شامل تھے۔ اگرچہ یہ بظاہر ایک دلکش ایجنڈا نظر آتا ہے مگر یہ ایسے روایتی اقدامات و اہداف ہیں کہ جن کا اظہار کم و بیش ہر آنے والا حکمران کرتا چلا آیا ہے۔ مریم نواز کو پنجاب کے حالات بیورو کریسی کی نظر سے نہیں خود اپنی اور مختلف شعبوں کے چند دردمند اہلِ نظر کی نگاہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہاں پر پنجاب کے چند اہم ترین مسائل کی طرف وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ مبذول کرائیں گے۔ مہنگائی پنجاب کے عوام کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ تیس ہزار روپے ماہانہ سے لے کر پچاس‘ ساٹھ ہزار ماہانہ کمانے والے غریب خاندان کا جب ماہانہ بجلی اور گیس کا بل بیس‘ بائیس ہزار روپے تک آئے گا تو اس کی دہائی عرش تک جا پہنچے گی۔ اسی طرح چینی‘ آٹے سمیت اشیائے خورو نوش کی قیمتیں ناقابلِ برداشت ہوں گی‘ ایسے خاندانوں کو جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے ہر ماہ سود در سود والا قرض لینا پڑے تو اُن کا کیا حشر ہو گا۔ مریم نواز مفت بجلی اور رمضان پیکیج ضرور دیں کہ اس سے کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا مگر کچھ ایسا کر جائیں کہ جس سے ان خاندانوں کی آمدنی بڑھے اور ان کی آئندہ نسلیں سنوار سکیں۔
گداگری ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ جس ملک میں قدم قدم پر بھکاری بھیک مانگتے نظر آئیں وہ سوسائٹی مالی افلاس سے زیادہ ذہنی افلاس کا شکار ہوتی ہے۔ ایک ثقہ سروے کے مطابق 24کروڑ کے ملک میں 3کروڑ 80لاکھ بھکاری ہیں‘ جن میں مرد‘ عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی‘ 16فیصد لاہور‘ 7فیصد اسلام آباد اور باقی دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ بھکاری سالانہ 42ارب ڈالر پاکستانی شہریوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔
اگر ان گداگروں کو کام پر لگا دیا جائے تو یہ روزانہ دوہزار روپے گھریلو صنعتوں کے ذریعے فی کس کما سکتے ہیں۔ ان پروڈکٹس کی ایکسپورٹ سے پاکستان سالانہ 40ارب ڈالر کا زرِمبادلہ کما سکتا ہے۔ یہ کوئی خواب و خیال کی باتیں نہیں۔ بنگلہ دیش نے جس روز گداگری کو ممنوع کرکے گھریلو صنعتوں کا نظام وضع کیا تو صرف چار برس کے بعد برآمدات سے 52ارب ڈالر اُن کے مرکزی بینک میں آ چکے تھے۔ مریم نواز اگر قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے چند ماہ کے دقیق ہوم ورک کے بعد گداگری کو قانوناً ممنوع قرار دے کر گھریلو صنعتوں کا نظام قائم کر دیں تو پنجاب پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لیے ہی نہیں‘ اس خطے کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی رول ماڈل بن سکتا ہے ۔پنجاب ہو یا کوئی اور صوبہ‘ گڈگورننس کے ثمرات سے محروم ہے۔ مریم نواز کاسمیٹک اقدامات سے اجتناب کرتے ہوئے اگر ایک سائل کی حیثیت سے خاموشی کے ساتھ بغیر پروٹوکول محکمہ مال‘ تھانوں‘ ہسپتالوں‘ گورنمنٹ سکولوں اور دیگر سرکاری دفتروں کا وزٹ کریں تو انہیں کسی ہیلپ لائن پر عوام کے مسائل سننے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ انہیں معلوم ہو گا کہ کچہریوں‘ محکمہ مال اور تھانوں میں کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ ماڈل تھانوں کے بجائے انہیں پولیس کے اندر بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں پہلا قدم تو یہ ہونا چاہیے کہ پولیس کا ''سیاسی ضروریات‘‘ کے لیے استعمال بالکل ممنوع قرار دیا جائے۔ پولیس کے صدیوں پرانے موجودہ نظامِ تربیت کا بنیادی نقطہ رعب و دبدبہ اور خوف و ہیبت ہے۔ اس نظامِ تربیت میں عوام دوستی اور شہریوں کا مددگار ہونے کا پروگرام شامل نہیں۔ اگر ان حالات میں اے ایس پی شہر بانو نقوی جیسا کوئی پولیس افسر فرض شناسی کا ثبوت دیتا ہے تو وہ ایک بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ پولیس کا حل ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کے لیے ہمیں یورپ و امریکہ جانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں جن خطوط پر موٹروے پولیس قائم کی گئی ہے‘ انہی خطوط پر شہری پولیس قائم کر دیجئے‘ آپ کو مطلوبہ نتائج مل جائیں گے۔ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ بے انتہا بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ 1970ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادی ملا کر دس کروڑ تھی۔ گویا آج کے پاکستان کی آبادی اس وقت پانچ کروڑ سے کم تھی جو اَب 24کروڑ ہو چکی ہے۔ 2034ء میں یہ آبادی 34کروڑ ہو جائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو آبادی کم کرنے کے مشن پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
مریم نواز صاحبہ تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں۔ کسی زمانے میں سرکاری سکولوں سے تعلیم یافتہ طالب علم ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ ڈاکٹر عبدالسلام اور نامور بیورو کریٹس ہوتے تھے۔ اب اکثر سرکاری سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ مثلاً جھنگ کی ایک تحصیل کے واحد گرلز سکول میں دہائیوں پرانی عمارت ہے۔ جو کلاس روم 30‘ 35 بچیوں کے لیے بنایا گیا تھا اب وہاں بلامبالغہ 70سے اوپر بچیاں ٹھونسی جاتی ہیں۔ مدرسات کی تعداد 50فیصد بھی نہیں۔ واش رومز ناکافی اور دیگر سہولتیں ناپید ہیں۔ یہی حالت پنجاب کے ہر سرکاری بوائز و گرلز سکول کی ہے۔ ہر ضلع میں دانش سکول قائم کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب کو سرکاری سکولوں کی حالت سنوارنے کے لیے انقلابی جوش و جذبہ سے کام کرنا چاہیے۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور معلمات پر اعتماد کرنے اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سکولوں کا سابقہ مقام اور معیار واپس لایا جا سکے۔ نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی نے سرکاری سکولوں کا معیار اتنا بلند کر دیا ہے کہ اب وہاں لوگ اعلیٰ پرائیویٹ سکولوں سے اپنے بچوں کو نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروا رہے ہیں۔ تعلیم کو جس طرح کمرشل کردیا گیا ہے یہ ایک المیے سے کم نہیں۔ اب اچھی اور اعلیٰ تعلیم بھی طبقۂ امراء تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کی بھی فی سمسٹر فیس 60‘ 70ہزار روپے سے کم نہیں۔ مریم نواز کو غریب نواز سرکاری تعلیم عام کرنا کرنے کا مشن اختیار کرنا چاہیے۔
مختصر یہ کہ مریم نواز پنجاب کو ایک مثالی صوبہ بنانے کے لیے روایتی نہیں انقلابی اقدامات کی طرف توجہ دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں