فارم 45اور 47سے نجات کیسے ممکن؟

ہم چونکہ دنیا سے نرالے ہیں اس لیے ہمارے کام بھی نرالے ہیں۔ جمہوری دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انتخابات کو مزید فیئر اور بامعنی بنانے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹرز باآسانی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ مگر ہمارے ہاں ہر نیا انتخاب گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں دھاندلی اور بدعنوانی کے نئے نئے انداز اور نئے حربے متعارف کراتا ہے۔ 2018ء میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت من پسند لوگوں کو جتوانے کے لیے پری پول مینجمنٹ کی گئی‘ پولنگ کے بعد آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا اور پھر جتنے منہ اتنی باتیں۔ بوجوہ الیکشن میں مخصوص امیدواروں کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے لیے بھی طرح طرح کی دقتوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
پلڈاٹ پاکستان کا بااعتماد اور بااعتبار تھنک ٹینک ہے۔ اس ادارے کی رپورٹوں کو اندرونِ ملک ہی نہیں‘ بیرونِ ملک بھی پذیرائی حاصل ہے۔ پلڈاٹ نے دو‘ تین روز قبل اپنی جاری کی جانے والی رپورٹ میں حالیہ انتخابات کے شفاف ہونے پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں انتخابی نتائج کے اجرا میں غیرمعمولی تاخیر اور فارم 45اور فارم 47میں جاری کردہ نتائج کے درمیان فرق کو اجاگر کیا ہے۔ دو روز قبل الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے فارم 45کو اپنی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ فارم45 پر بڑی سنگین نوعیت کے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ فارم 45کے مطابق ایک پولنگ سٹیشن میں نواز شریف صاحب کے 138ووٹ تھے جنہیں 1138بنا دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے زعما کا کہنا ہے کہ گجرات کے ایک پولنگ سٹیشن سے قیصرہ الٰہی کے 507ووٹوں کو 007 بنا دیا گیا۔ اسی طرح ایک فارم 45پر 44ووٹوں کو 444بنا دیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ نہایت بھونڈے اور بچگانہ طریقے سے فارم 45پر تبدیلی کی گئی ہے‘ اس طرح تو الیکشن کمیشن نے اپنے خلاف خود ہی ثبوت فراہم کر دیے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ''لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا‘‘۔
انتخابی بدعنوانی کا علاج کیا ہے؟ بدعنوانی کا حقیقی علاج تو دیانت داری ہے؛ تاہم دیانت داری کے معیارِ مطلوب تک پہنچنے کے لیے نجانے ہمیں اور کتنی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے گا۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمن نے بھی اپنے جمع کردہ فارم 45اور الیکشن کمیشن کے اَپ لوڈڈ فارم 45کے درمیان فرق کو بعُد المشرقین قرار دیا ہے۔ امیدواروں اور الیکشن کمیشن کے جاری کردہ انتخابی نتائج کے درمیانی فرق کا مسئلہ حل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ سیٹ وار معاملہ الیکشن ٹربیونلز کے سامنے پیش ہو اور وہ اس پر فیصلہ دیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی عدالتی یا پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جو 2024ء کے مکمل انتخابات میں ہونے والی بدعنوانیوں کا جائزہ لے کر الیکشن کے شفاف ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ صادر کرے۔
یوں تو انتخابی عمل میں ہونے والی دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں نے نشاندہی کی ہے؛ تاہم اس انتخاب کو سب سے زیادہ متنازع فارم45 اور فارم47 کے درمیانی فرق نے بنایا ہے۔ فارم47 میں سیاہ کو سفید اور قلت کو کثرت میں تبدیل کر دینے والی بدعنوانیوں کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے فارم45 پر تبدیلیاں کی گئیں۔ اسی لیے پندرہ روز کی مجوزہ قانونی مدت کی بجائے ویب سائٹ پر تقریباً ایک ماہ کے بعد فارم45 اَپ لوڈ کیے گئے۔
ہمارے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے دو اقدامات ازبسکہ ضروری ہیں۔ پہلا قدم تو یہ کہ انتخابی عمل میں ہر طرح کی مداخلت کا دروازہ پارلیمانی قانون سازی سے ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔ دوسرا سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ فارم45 اور فارم47 سے مستقلاً جان کیسے چھڑائی جائے۔ ان فارموں یا انتخاب کے برسوں پرانے طریق کار سے نجات کا مؤثر ترین اور محفوظ ترین طریقہ تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہی ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ کا ایک طریقہ تو وہ ہے کہ جو امریکہ میں رائج ہے۔ اسی سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے دو بڑی پارٹی کے امیدواروں کے چناؤ کا عمل ان دنوں امریکہ میں جاری ہے۔ اسے عرفِ عام میں پرائمری کہا جاتا ہے۔ یہ بڑا سادہ طریق کار ہے جب ووٹر اپنی رہائش سے قریب پولنگ سٹیشن پر جاتا ہے تو اس کی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوتی بس اس کا آئی ڈی کارڈ نمبر مشین میں فیڈ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مشین سے ایک بیلٹ پیپر باہر آ جاتا ہے۔ اس پر آپ اپنی پسند کی پارٹی کے جس صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار کو ووٹ دینا چاہتے ہیں‘ اس کے نام کے سامنے آپ نشان لگا دیں گے۔ پھر یہ فارم آپ ایک سکیننگ مشین میں ڈال دیں گے۔ یوں یہ فارم ''الیکشن کمیشن‘‘ کے پاس پہنچ جائے گا۔ مشین پر ساتھ ساتھ نتائج بھی مرتب ہوتے جائیں گے۔ ووٹنگ کا یہ عمل صدارتی الیکشن کے مواقع پر دہرایا جاتا ہے۔ اس وقت آپ کو جو بیلٹ پیپر ملتا ہے‘ یہ صرف صدر کے انتخاب کے لیے نہیں بلکہ گورنر‘ اپنے علاقے کے پولیس سربراہ وغیرہ کا چناؤ بھی اسی بیلٹ پیپر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ آٹومیٹک مشینی سسٹم سے نتائج بھی مرتب ہوتے جاتے ہیں۔
پاکستان کے حالات کے مطابق الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ کا ایک اور طریقہ یہاں بھی رائج ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے انتخاب ہوا۔ اس کا آنکھوں دیکھا بلکہ استعمال کردہ طریق کار ایک وکیل صاحب نے مجھے سنایا۔ وکیل صاحب بتاتے ہیں کہ وہ ووٹنگ ہال میں انتخاب کے روز پہنچے تو وہاں بیس‘ بائیس مشینیں موجود تھیں۔ انہیں پہلے بائیو میٹرک کے مرحلے سے گزرنا پڑا‘ اس کے بعد وہاں کھڑے اسسٹنٹ نے انہیں گائیڈ کیا کہ وہ کسی بھی مشین پر جا کر اپنی پسند کے امیدواروں کو بائیو میٹرک کے ذریعے اپنا ووٹ دے سکتے ہیں۔ وکیل صاحب نے ایسے ہی کیا‘ اس کے بعد انہوں نے ایک بٹن دبایا تو ان کا ووٹ گنتی کے مرکزی نظام میں شامل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا پرنٹڈ بیلٹ پیپر باہر آگیا جسے انہوں نے باسکٹ میں ڈال دیا۔ یوں وکیل صاحب کے ووٹ کا دستاویز ی ثبوت بھی تیارہو گیا جسے حسبِ ضرورت طلب بھی کیا جا سکتا ہے۔
آپس میں مربوط تمام مشینوں کے ذریعے بار ایسوسی ایشن کے نتائج بھی مرتب ہوتے رہے۔ یوں پولنگ ٹائم ختم ہونے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد لاہور ہائیکورٹ بار کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ کسی ایک وکیل نے بھی ان نتائج کے بارے میں کسی طرح کے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا۔ اس انتخاب سے پہلے مختلف سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کو فارم 45پر نتائج ہندسوں میں لکھنے کے ساتھ ساتھ الفاظ میں بھی لکھنے کی پُرزور تجویز دی تھی۔ اسی طرح سیاسی پارٹیوں نے چیف الیکشن کمشنر کے سامنے فارم 47پر نتائج مرتب کرنے کے دوران آر اوز کے دفاتر میں ہر پارٹی کی موجودگی پر اصرار بھی کیا تھا۔ ان دونوں تجاویز کو رد کرکے الیکشن کمیشن نے خود ہی انتخابی عمل کو متنازع بنا لیا ہے۔
بڑی سیاسی جماعتیں یا دیگر سٹیک ہولڈرز چاہیں یا نہ چاہیں‘ پاکستان کے ووٹرز فری اینڈ فیئر انتخاب چاہتے ہیں۔ عوامی مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے قومی اسمبلی میں تینوں بڑی جماعتیں متفقہ طور پر انتخابی اصلاحات کا بل لائیں اور الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو متفقہ طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیں۔ اس طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارم45 اور فارم47 کے متنازع نظام سے نجات حاصل ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں