پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ

پنجاب یونیورسٹی کے ایکٹنگ وائس چانسلر برادرِ مہرباں ڈاکٹر خالد محمود صاحب اور دیگر کئی پروفیسروں اور ناشروں کی طرف سے یونیورسٹی کے کتاب میلے میں حاضر ہونے کی دعوت تھی مگر میں نے سوچ رکھا تھا کہ سہ روزہ کتاب میلے کے ایک روز میں چپکے سے جاؤں گا اور کتابوں پر ایک نظر ڈال کر قلب و نظر کو شاد کروں گا۔
جمعۃ المبارک کے روز سہ پہر کے قریب میں اپنی مادرِ علمی پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس پہنچا تو مجھے پہلی نظر میں ہی محسوس ہوا کہ یہاں کتاب میلے سے بڑھ کر اور بہت کچھ ہے۔ ادارۂ تعلیم و تحقیق کی بیرونی دیوار پر یونیورسٹی اورینٹل کالج کی طرف سے ہونے والے مشاعرے کا بینر آویزاں تھا۔ میں وحید ہال پہنچا تو اورینٹل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر نبیلہ رحمن کی زیرِ صدارت مشاعرہ جاری تھا۔ طلبہ و طالبات کا ذوقِ شعر گوئی باکمال اور اُن کا شوقِ سماعت قابلِ دید تھا۔ وہ بھرپور داد دے رہے تھے مگر تہذیبی و مجلسی روایات کا پاس لحاظ رکھتے ہوئے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ان نوجوانوں کی سوشل میڈیاکے بے لگام طرزِ تکلم سے کوئی آشنائی نہیں۔ مدثر حیات نول کا یہ شعر مجھے روح تک سرشارکر گیا:
ساڈے سراں اُتوں ٹپ گیا پانی
تے گھڑیاں وِچ گھُٹ کوئی نا
مجھے کالرج یاد آ گیا
Water, water every where, nor any drop to drink.
اب اساتذہ کے بھی اشعار ملاحظہ کیجئے۔ غالب کی زمین میں شاہنواز زیدی کایہ شعر دیکھیے:
میں نے کہا سچ کہو کیا مجھے بھول جاؤ گی
چٹکی بجا کے صاحبو اس نے کہا کہ یوں
شعبۂ فارسی کے پروفیسر شعیب احمد کے اس شعر پر ہال تادیر تالیوں اور داد و تحسین سے گونجتا رہا:
ہم نے ہر اک کو تری بات بتائی ہوئی تھی
ہم نے ہر اک سے ترا نام چھپایا ہوا ہے
پروفیسر اسرار چشتی نے اس شعر میں بڑی گہری بات کہی ہے:
دیکھ کر لکڑی کی چھت سوچتا ہوں
کٹ کے بھی پیڑ کا سایہ نہ گیا
نہایت سلیقے سے کمپیئرنگ کرنے والے شعبۂ اردو کے استاد مشتاق احمد کا یہ شعر بھی خوب ہے:
جا بجا درختوں پہ ترا نام لکھا
میں نے جنگل میں کیا ہے ترا چرچا میرے دوست
پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ زریں اورینٹل کالج کے شعبۂ فارسی کی پروفیسر ہیں‘ وہ خالص ایرانی لب و لہجے میں فارسی بولتی ہیں۔ اور ایران میں عظمیٰ لاہوری کہلاتی ہیں ۔وہ اردو‘ فارسی اور پنجابی تینوں زبانوں میں شعر کہتی ہیں۔ ذرا اُن کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
تمہاری شور بختی کا ازالہ ہونے والا ہے
سجی ہے بزمِ زریں بس اُجالا ہونے والا ہے
اب کتاب میلے کا حال سنیے! میں سعدیہ قریشی کے کالموں کا برسوں سے قاری ہوں۔ ان میں حقیقتِ حال بھی ہوتی ہے‘ ندرتِ خیال بھی اور دلوں کو موہ لینے والا پیرایۂ اظہار بھی۔ اردو نظم کے عظیم شاعر اور نامور نقاد ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا تھا کہ جب کوئی خیال دل و دماغ میں رچ بس کر تخلیقی عمل سے گزرتا ہوا قلم و قرطاس تک پہنچتا ہے تو پھر وہ ادب پارہ بن جاتا ہے۔ اگرچہ سعدیہ قریشی کی تحریریں اپنے زمانے اور گرد و پیش سے جڑے ہوتی ہیں مگر انہیں ادب پارے اور انشائیے کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔القلم فاؤنڈیشن کے سٹال پر میں نے اُن کی کتاب ''کیا لوگ تھے‘‘ دیکھی! اس کتاب میں اپنے حصے کی شمعیں جلا کر رخصت ہونے والے مشاہیر کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی قومی و بین الاقوامی شخصیات کی زندگی اور اُن کے کارناموں کی سچی کہانیاں سنائی گئی ہیں۔ دلچسپ اور زندگی کو بدل دینے والے واقعات سے مزین کتاب کو آپ ایک دفعہ پڑھنا شروع کریں گے تو اختتام سے پہلے اس سے جدائی آسان نہ ہو گی۔اسی سٹال پر ایک اور کتاب نے میرے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ کتاب کا ٹائٹل ہے ''مصر‘ خواب اور تعبیر‘‘ مصنف ہیں ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ڈاکٹر صاحب ملکی ہی نہیں‘ عالمی سطح کے نامور ادیب‘ دانشور اور شاعر ہیں۔ وہ محتاجِ تعارف نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شعر و ادب پر درجنوں کتابیں اور اُن کے شرق و غرب کے بہت سے سفرنامے اہلِ ذوق سے بے حد داد پا چکے ہیں۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے خوابوں کے دیس مصر کی علمی و تہذیبی اور ثقافتی و معاشرتی زندگی کی نہایت فکر انگیز تصویر کشی کی ہے۔ کتاب میں مصر قدیم کا تذکرہ بھی ہے اور دورِ جدید کا بھی‘ اور کہیں کہیں دونوں کا سنگم بھی نظر آتا ہے۔ کتاب میں شعر و ادب کے تذکرے بھی ہیں اور علم و عرفان کے خزینے بھی۔ اس پبلشنگ کے ناظر و ناشر نے کتابیں تحفتاً پیش کرنے کی کوشش کی مگر میں نے بااصرار دونوں کتابوں کا ہدیہ پیش کر دیا۔
ملک کے ایک مشہور پبلشنگ ادارے کے منتظم گگن شاہد نے بھی اپنا سٹال وزٹ کرنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ میں وہاں بھی حاضر ہوا۔ اس سٹال پر راجہ انور کی کتاب ''قبر کی آغوش‘‘ نے فوراً مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ میں نے یہ کتاب بھی خرید لی۔ راجہ انور زمانۂ طالب علمی سے ہی بائیں بازو کے انقلابی تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے بھی تھے اور متوالے بھی۔ 1973ء سے 1977ء تک وہ بھٹو صاحب کے مشیر برائے طلبہ امور رہے۔ حالات کے نشیب و فراز میں وہ کئی پاکستانی جیلوں میں بھی رہے اور مشہورِ زمانہ یا بدنام زمانہ کابل کے پلِ چرخی زنداں میں بھی 1980ء سے 1983ء تک مقید رہے۔ اس کتاب میں اسی قید خانے کی کہانی ہے۔ راجہ انور حیران کن انقلابی ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ حضرت حسرت موہانی کے مقلد ہیں۔ حسرت نے فرمایا تھا:
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
ہے مشقِ سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی
راجہ صاحب کی کتابوں کے قارئین بھی بہت ہیں اور ان کے فینز بھی۔ ''قبر کی آغوش‘‘ راجہ انور کی خود نوشت بھی ہے اور اُن کی سرگزشت بھی۔ پلِ چرخی کے بھیانک شب و روز کے علاوہ اس کتاب میں نوجوان مرتضیٰ بھٹو کے بپھرے ہوئے انتقامی جذبات کی سرکش موجیں بھی ہیں اور بے نظیر بھٹو کی گہری فکر و دانش کی حکایتیں بھی۔ اس کتاب میں تلخ و شیریں حوادث کی کہی اَن کہی داستانِ غم کا تذکرہ کرتے ہوئے راجہ انور کا اسلوبِ بیان دلچسپ و شگفتہ رہتا ہے۔ میں نے یہ کتا ب بھی خرید لی۔
پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ اپنی منفرد شان کے ساتھ کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔ مگر کورونا اور دیگر کئی ''احتیاطی وجوہات‘‘ کی بنا پر نو برس تک یہ میلہ معطل رہا۔ موجودہ ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کی خصوصی توجہ سے طویل عرصے کے بعد اس کا دوبارہ اجرا ہوا۔ بعض ازاں ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ تین روزہ میلے میں ڈیڑھ لاکھ کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ جب کتاب میلے میں مجھے اپنے تاثرات پیش کرنے کو کہا گیا تو میں نے طلبہ و طالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ نے شوق و ذوق سے کتابیں خرید کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ کتاب بینی کا کلچر ختم نہیں ہوا بلکہ یہ فزوں تر ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں نے ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر پڑھ دیا:
آرزوئیں تو شبستانوں میں لے جاتی تھیں مجھ کو
میں کتب خانوں میں اوراق پہ سر دھنتا رہا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں