غزہ میں ہر لحظہ بڑھتا انسانی المیہ

ایک مہیب سناٹا سارے عالمِ اسلام پر چھایا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم ملکوں کے حکمرانوں کو غزہ کے شہید ہونے والے بھائیوں‘ بہنوں کے بارے میں کوئی فکرمندی ہے نہ دلچسپی۔ البتہ مقامِ حیرت یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کے دلوں سے ہر خوف دور ہو چکا ہے۔ انہیں زندگی اور موت کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ وہاں موجود کئی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غموں سے نڈھال اور بھوک سے بے حال غزہ کے عوام اپنی تکالیف بھول کر دوسروں کی مدد کے لیے ہر لمحہ کمر بستہ رہتے ہیں۔
اسرائیل اب بموں کے ساتھ ساتھ بھوک کا ہتھیار بھی استعمال کر رہا ہے۔ مصر کے راستے دنیا بھر سے خوراک آ رہی ہے۔ خوراک سے لدے ہوئے ان ٹرکوں کو رفح اور پھر وہاں سے بآسانی غزہ داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔ صحرائے سینا اور رفح کے بارڈر پر کئی کئی دن ٹرک اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ جو خوراک کسی نہ کسی طرح سے غزہ میں پہنچ جاتی ہے اسے تقسیم نہیں ہونے دیا جا رہا۔ یو این او کی بھی یہی کوشش ہے کہ غزہ کے محصور و مجبور لوگوں کوزیادہ سے زیادہ خوراک پہنچائی جائے مگر اسرائیل کی بے حسی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ وہ گوداموں اور مراکزِ تقسیم میں موجود خوراک کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کے لیے کام کرنے والی یو این او کی کئی ایجنسیوں نے دُہائی دی ہے کہ ان کے مراکزِ تقسیم میں کارکنوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے اور اشیائے خورو نوش کو تباہ کیا جا رہا ہے۔غزہ کی وزارتِ صحت نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہاں موجود خوراک کے اکّا دکّا ڈپوؤں پر اسرائیل گولہ باری کر کے کارکنوں کو شہید کر رہا ہے اور خوراک تباہ کی جا رہی ہے۔
یو این او سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک اور امدادی ادارے غزہ کے قحط زدہ لوگوں کے لیے خوراک بھیج رہے ہیں مگر ضرورت مندوں تک خوراک نہیں پہنچنے دی جا رہی۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ پاکستانی حکومت نے اب تک کتنی امدادی خوراک‘ ادویات اور ضرورت کا دیگر سامان غزہ بھیجا ہے مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان کی انتہائی نیک نام تنظیم الخدمت کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور سیکرٹری جنرل سید وقاص جعفری کئی دنوں سے قاہرہ میں موجود ہیں۔ الخدمت کے ایک ترجمان نے ایک وڈیو جاری کی ہے جس میں 10 مارچ 29 شعبان کے روز ڈاکٹر حفیظ الرحمن بنفس نفیس مصر کے شہر اسماعلیہ سے 20 بڑے ٹرکوں کا قافلہ رفح کے راستے غزہ کے لیے روانہ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ الخدمت کے صدر نے بتایا کہ اہلِ غزہ کیلئے بھجوائے جانے والے سامان میں ایک ایمبولینس اور 15 ہزار خاندانوں کے لیے ایک ماہ کی وافر خوراک موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں اپنے ہزاروں ڈونرز کا بے حد شکریہ ادا کیا جن کے فراخدلانہ عطیات سے ہی امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہو سکی۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ ضرورت کا یہ سامان غزہ کے روزہ داروں تک پہنچ گیا ہو۔ اگرچہ وہاں کے لوگوں کی ضروریات کے مطابق یہ سامان بہت کم ہے مگر اہلِ پاکستان کا اپنے فلسطینی بھائی بہنوں کے لیے جذبۂ محبت و اخوت قابلِ قدر ہے۔تقریباً نصف درجن کے قریب عرب اور یورپی ممالک نے فضا سے پیراشوٹ کے ذریعے خوراک کے تھیلے گرائے ہیں مگر یہ طریقہ زیادہ کامیاب نہیں کیونکہ ان تھیلوں سے بعض فلسطینیوں کی اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔
تقریباً دو ہفتے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے عالمی کمیونٹی کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ وہ نہایت پُرامید ہیں کہ آغازِ رمضان کے ساتھ ہی غزہ میں چالیس روزہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے گا۔جب یہ سطور سپرد ِقلم کی جا رہی ہیں اُس روز فلسطین میں پانچواں روزہ ہے مگر اب تک نہ سیز فائر ہوا ہے اور نہ ہی اہلِ غزہ تک بآسانی خوراک کی ترسیل ممکن ہو سکی ہے۔ وہاں کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہم دو ماہ سے جبری روزے رکھ رہے ہیں کیونکہ ہم اشیائے خورو نوش سے محروم ہیں۔ اب ہم اپنے رب کی خوشنودی کے لیے روزے رکھ رہے ہیں۔تقریباً ایک ہفتہ قبل آل پاور فل امریکی صدر جوبائیڈن نے سیز فائر کی کمٹمنٹ کو وہیں چھوڑ کر ایک اور بات کہی ہے کہ ہم ہنگامی بنیادوں پر دو ماہ میں غزہ کے ساحل سمندر پر ایک عارضی بندرگاہ بنا دیں گے تاکہ بآسانی خوراک غزہ پہنچ سکے۔ اہلِ غزہ کو قحط سے بچانے کے لیے وہاں خوراک کا فوری طور پر پہنچنا ضروری ہے نہ کہ دو ماہ بعد۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود۔
اس دوران مصر میں قطری حکام کے توسط سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کبھی تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی رینگنے لگتے ہیں۔ان دنوں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو رفح میں غزہ کے تقریباً پندرہ لاکھ پناہ گزینوں پر حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ گویا اسرائیل انہیں خاک و خون میں تڑپا کر‘ اُن کے گھروں‘ مسجدوں‘ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو کھنڈرات کے ڈھیر میں بدل کر بھی اس کی فلسطینیوں کے خلاف آتشِ انتقام سرد نہیں ہوئی۔رمضان المبارک میں حملے کم کرنے کے بجائے اسرائیل نے غزہ‘ رفتح اور خان یونس شہری آبادیوں پر بمباری اور گولہ باری کو تیز تر کر دیا۔صدر جوبائیڈن رفح پر ایسے کسی حملے کو ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی اسی سانس میں امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ ہر حال میں اسرائیل کی مدد جاری رکھیں گے اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔یوں قدم قدم پر امریکی صدر کے تضادات دنیا کے سامنے آ رہے ہیں۔
اگر صدر جوبائیڈن 32 ہزار فلسطینیوں کی شہادت‘ جن میں دس ہزار سے زائد پھول سے بچے شامل ہیں اور اُن کی شہری ریاست کے ملیا میٹ ہونے اور ستر ہزار کے اوپر زخمیوں کے اس انسانی المیہ پر ادنیٰ سا بھی دکھ درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں تو پھر وہ فوری طور پر جنگ بندی کروائیں اور رفح کے راستے خوراک اہلِ غزہ تک پہنچنے میں حائل اسرائیلی رکاوٹیں دور کروائیں۔ اگر امریکی صدر اسرائیل کو دو ٹوک انداز میں کہیں کہ بس! بہت ہو گیا‘ اب مزید کوئی جنگی کارروائی نہیں ہوگی تو کیسے ہو سکتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کی حکم عدولی کرے۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ غزہ میں جس المیہ نے جنم لیا ہے اس کی بنیاد میں حماس کی جذباتی اپروچ کا بھی کسی حد تک دخل ہے جبکہ حماس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جب زندگی موت سے بدتر بنا دی جائے تو پھر پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا ہے۔ یقینا یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جسے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے اہلِ علم اور اہلِ سیاست کو ضرور زیر بحث لانا چاہئے۔ مگر ابھی اس کا وقت نہیں ہے۔ اس وقت تو انسانی المیہ کو دور کرنے کے لیے ہر طرف سے کوشش ہونی چاہئے۔
اگر عالمِ اسلام کے حکمران حماس کے نقطۂ نظر کو درست نہیں سمجھتے تو اس کی سزا اہلِ غزہ اور اہلِ فلسطین کو تو نہ دیں۔ انہیں جرأت مندی اور مکمل اتحاد کے ساتھ امریکہ پر واضح کرنا چاہئے کہ وہ اسرائیل سے جنگ بندی کروائے اور امریکہ و یورپ نے اہلِ فلسطین سے جس خود مختار ریاست کا وعدہ کر رکھا ہے اس کو پورا کیا جائے۔ غزہ میں اگر منہ زور اسرائیلی جارحیت کو نہ روکا گیا تو پھریہ فلسطینی ریاست جس آگ کی لپیٹ میں ہے اس کے شعلے عالمِ عرب کے دیگر ملکوں تک بھی پھیل سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں