سائفر سے الیکشن تک

امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کا پاکستان کے بارے میں اجلاس منعقد کرانے کے پیچھے امریکہ میں مقیم بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاکستانی حامیوں کی کوششوں کا بھی یقینا دخل ہو گا۔ تاہم اس اجلاس کیلئے پسِ پردہ تگ و دو کرنے سے پہلے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کی کمیٹیوں کی ورکنگ کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کر لینی چاہئیں تھیں۔
اس تفصیلی اجلاس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لُو نے سائفر کے معاملے میں عمران خان کے عوامی بیانیے کو سو فیصد جھوٹ اور غلط بیانی قرار دیا۔ گویا اس کارروائی سے دنیا بھر میں اُن کو امریکہ کی طرف سے سرکاری طور پر دروغ گو ثابت کر دیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی کے جھوٹ کی سارے جگ میں تشہیر ہوئی اور دنیا بھر کے سیاسی و سفارتی حلقوں کو خان صاحب کی شخصیت کے اس پہلو سے بھی آگہی ہوئی جنہیں اس بارے میں پہلے کچھ معلوم نہ تھا‘ اب بہت کچھ معلوم ہو گیا ہے۔ گویا بقول شاعر:
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں
ڈونلڈ لُو نے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی کے روبرو یہ بھی بیان دیا کہ اس سائفر پروپیگنڈے کے بعد انہیں اور ان کی بیوی کو قتل کی دھمکیاں بھی ملیں۔ انہوں نے واضح طور پر نہایت ذمہ داری سے کمیٹی کے سامنے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت گرانے میں اُن کا کوئی کردار نہ تھا۔ امریکہ میں مقیم ہماری بااثر پاکستانی شخصیات اور پی ٹی آئی کے مہربان سوچیں کہ اس ساری کارروائی سے جہاں میں عمران خان کی سرخروئی ہوئی یا رسوائی؟
ایک مرتبہ پھر میں قارئین کو یاد دلاتا ہوں کہ سا ئفر کیا ہے؟ سائفر ایک ایسا سفارتی نوٹ ہوتا ہے جو کوئی سفیر اپنے ملک کی وزارتِ خارجہ کو کوڈِڈ الفاظ میں بھیجتا ہے۔ یہ خط اگر لیک بھی ہو جائے تو اسے کوئی سمجھ نہیں سکتا کیونکہ اسے ڈی کوڈ کرنے اور اپنی زبان میں بیان کرنے کا طریقہ سفیر کے اپنے ملک کی وزارتِ خارجہ کے مخصوص شعبے کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ اس طرح کے سائفر روٹین میں ہمارے سفرا وزارتِ خارجہ کو بھیجتے رہتے ہیں۔
انتہائی قریب ترین دوست ممالک کے درمیان بھی بعض اوقات کسی موضوع پر اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان اختلافات کا کوئی ملک کسی پبلک فورم پر ذکر نہیں کرتا۔ پاکستان میں بھی پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ مارچ 2022ء میں جب عمران خان کو اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خطرہ سر پر منڈلاتا نظر آیا تو انہوں نے اسلام آباد کے ایک عوامی جلسے میں اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ کے سر تھوپ دیا۔سائفر کے علاوہ ڈونلڈ لُو نے پاکستانی انتخابات کے بارے میں بھی کھل کر بات کی اور ان میں واضح بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے تحقیق کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔ معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا نے ساری دنیا کے سامنے بتایا کہ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ ڈونلڈ لُو نے یہ بھی کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات قدرے منظم تھے مگر امریکہ چاہتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پری الیکشن ماحول‘ گرفتاریوں‘ انٹرنیٹ بندش اور دیگر بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات کرے۔
لُو کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کو فل ڈیمو کریسی دیکھنا چاہتا ہے۔ معاون وزیرِ خارجہ نے ''پاکستان میں فل ڈیمو کریسی‘‘ والی دلچسپ بات کہی۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوریت کو روند کر جب طاقتوروں نے بزورِ شمشیر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو امریکہ نے آمریت کی پُرزور مذمت کم ہی کی ہے۔ وہ فوجی آمروں اور ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کے ساتھ بھی کھڑا نظر آتا ہے۔ برسوں کی فوجی آمریتوں کے بعد 2012ء میں محمد مرسی پہلے شفاف انتخاب میں مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ صرف ایک برس کے بعد ہی صدر مرسی کے اپنے مقرر کردہ آرمی چیف عبدالفتاح السیسی نے ان کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس غیرجمہوری اور آمرانہ حکومت کے خلاف امریکہ نے کوئی قدغنیں نہیں لگائیں بلکہ السیسی کی حکومت کو مصر کی تاریخ کا آئی ایم ایف کا سب سے بڑا قرض دیا گیا۔
پاکستانی انتخابات کے بارے میں امریکی سرٹیفکیٹ کی اہمیت ہے یا نہیں۔ امریکہ ہمارے انتخابی عمل میں دخل اندازی کر سکتا ہے یا نہیں۔ البتہ ہمیں ایک انتہائی ذمہ دار امریکی فورم سے پاکستانی انتخابات کی ناقابلِ رشک تاریخ‘ ہمارے انتخابی نظام بالخصوص آٹھ فروری کے الیکشن کا جو آئینہ دکھایا گیا ہے‘ اس میں ہمیں اپنے احوال کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ پاکستان میں کی جانے والی انتخابی دھاندلی کے بارے میں امریکی تشویش بے بنیاد نہیں۔
ریپبلکن ممبر شرمین نے ڈونلڈ لُو کو ہدایت کی کہ وہ اسلام آباد میں امریکی سفیر کو پابند کریں کہ وہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرکے اُن کی صحت و سلامتی کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہاں ایک بات اور بھی عیاں ہوتی ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کی کمیٹیاں کتنی طاقتور ہیں۔ وہ حکومتی عہدیداروں کو براہِ راست احکامات و ہدایات دیتے ہیں جن کی تعمیل کی جاتی ہے۔
پاکستان میں پری پول ماحول کیسا تھا؟ انٹرنیٹ کی بندش کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس سے ووٹروں کو اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے میں بے انتہا دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح فارم 45 اور 47 کے درمیانی فرق نے ہمارے انتخابی عمل کو بہت بے اعتبار بنایا۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی ٹرم کے آغاز میں عمران خان کے زمانۂ اقتدار کے دوران حکومتی پارٹی کی طرف سے ضمنی انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کا فی الفور اور نہایت زور دار محاسبہ کیا تھا اور ذمہ داروں کو سزا دینے میں بھی تاخیر نہ کی مگر اب آٹھ فروری والے انتخابات کے موقع پر اُن کی ''عقابی روح‘‘ کافی خوابیدہ رہی۔ اس موقع پر غالباً مصلحت اندیشی ان کی روایتی اصول پسندی پر غالب نظر آتی رہی۔ بالخصوص کراچی کا معاملہ تو بالکل واضح تھا کہ تیسرے چوتھے نمبر پر آنے والی ایم کیو ایم کی جھولی میں پندرہ سیٹیں ڈال دی گئیں۔
سیاستدان عمران خان ہوں یا آصف علی زرداری ہوں یا میاں شہباز شریف‘ جب وہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کر لینے کو اپنا بنیادی ہدف قرار دے لیتے ہیں تو پھر وہ بڑے بڑے کمپرومائزز کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ انتخابات کے بعد سیاسی بساط کا یہ منظرنامہ کتنا دلچسپ اور حیران کن ہے کہ نگران سیٹ اَپ کے وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نئے سیاسی نظام میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ مرکزی وزیر داخلہ مقرر کر دیے گئے ہیں۔ وزیر داخلہ ہی تو کسی کامیاب ہونے والی جماعت کا چہرہ ہوتا ہے۔ مزید حیران کن امر یہ ہے کہ سینیٹ کی سیٹ کے لیے نقوی صاحب کی تجویز کنندہ مسلم لیگ (ن) اور اُن کی تائید کنندہ پیپلز پارٹی ہے۔ ہر نگران وزیر بالخصوص وزیراعلیٰ کے لیے غیر جانبداری شرطِ اوّلین سمجھی جاتی ہے۔ نگرانوں کا سیاسی حکومتوں میں بڑے بڑے مناصب حاصل کرنے کے بعد اُن کی غیر جانبداری کا بھرم کہاں تک باقی رہتا ہوگا۔
سائفر سے الیکشن تک کے احوال کا ہمارے سیاستدانوں‘ انتخابی عمل کے ذمہ داروں اور دیگر سٹیک ہولڈروں کو نہایت سنجیدگی سے جائزہ لے کر اصلاحِ احوال کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ آئندہ انتخابات کو مکمل طور پر صاف شفاف بنایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں