حافظ نعیم الرحمن کیا تبدیلی لائیں گے؟…(2)

حافظ نعیم الرحمن صاحب سے وابستہ توقعات اور مستقبل میں بحیثیت امیر اُن کی کامیابی کے لیے بعض تجاویز پیش کرنے سے پہلے میں ایک فکری مغالطے کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہفتے کے روز میرے کالم کی پہلی قسط شائع ہوئی تو جماعت اسلامی سے ذہنی و قلبی وابستگی رکھنے والے بعض اسلامک تھنکرز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا جن کا خلاصہ ذ یل میں پیش کر رہا ہوں۔ ''جماعت اسلامی کا نصب العین اور مقصد انقلاب ہے لیکن اس جماعت نے جعلی جمہوری انتخابی سیاست کے گورکھ دھندوں میں اُلجھ کر اپنی منزل کھوٹی کر لی ہے‘‘۔ یہ حضرات آگے فرماتے ہیں کہ کیا ایک مکمل اخلاقی و اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر موجودہ کرپٹ حکمرانوں کی موجودگی میں ممکن ہے؟
ہمارے یہ دانشور حضرات ایک بہت بڑے کنفیوژن اور مغالطے کا شکار ہیں۔ اس مغالطے کی جڑ خود بانی جماعت اسلامی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے کاٹ دی تھی۔ 1964ء میں مولانا مودودی جماعت کی مجلس شوریٰ کے اراکین سمیت لاہور کی کیمپ جیل میں نظربند تھے۔ 19 مارچ 1964ء کو میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری نے جیل کے اندر اپنی ڈائری میں اُس روز مولانا مودودی سے بات چیت کو درج ذیل عنوان کے تحت محفوظ کیا تھا۔
مولانا نے کہا: تبدیلی اسی راستے سے آئے گی۔''آج سویرے مولانا مودودی میرے کمرے میں تشریف لائے اور مزاحاً پوچھا کہ آپ کو پان کے سلسلہ میں کوئی نص ملی؟ میں نے کہا مولانا! یہ تو اجتہادی مسئلہ ہے تو انہوں نے کہا کہ آؤ اور پان لے لو تاکہ آپ بہتر اجتہاد کر سکیں۔ میں نے مولانا سے آٹھ پتے لیے۔ آج سیر کے دوران میں نے مولانا سے عرض کیا کہ بعض اوقات نامساعد حالات یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ ہمیں انقلاب کے لیے دوسرے راستوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ مولانا نے فوراً فرمایا کہ راستہ تو یہی جمہوری انتخابی اور قانونی درست ہے اور ان شاء اللہ جب بھی تبدیلی آئے گی اسی راستے سے آئے گی‘‘۔
مولانا مودودیؒ کا ایک بڑا اجتہادی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اسلامی معاشروں میں تبدیلیٔ قیادت کا صرف اور صرف ایک راستہ ہے اور وہ عوامی ذہن سازی اور پھر انتخابات کا راستہ ہے۔آج کی معاصر اسلامی دنیا میں جہاں کہیں جمہوری و قانونی راستہ چھوڑ کر مزاحمتی راستہ اختیار کیا گیا وہاں اسلامی قوتوں کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں جماعت اسلامی کی کامیابی میں دو عوامل کا بڑا بنیادی کردار ہے۔ ایک حافظ نعیم الرحمن کی ہمہ وقت متحرک شخصیت اور دوسرا جماعت کی کراچی بھر میں زبردست تنظیم۔ یہ اسی تنظیم کا اعجاز ہے کہ جماعت کے لوگ عوامی گلی کوچوں سے لے کر اشرافیہ کی بستیوں تک‘ گھر گھر سے رابطہ رکھتے ہیں۔ غریب لوگوں کا دکھ درد صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ عملاً ان کی خبر گیری کرکے بانٹتے ہیں۔ اس مسلسل رابطۂ عوام ہی کی بدولت کراچی کے لوگ حافظ نعیم الرحمن صاحب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں اور جماعت کے نمائندوں کو اپنا خادم اور نمائندہ سمجھتے ہوئے گروہ در گروہ ووٹ بھی دیتے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ جماعت کو کراچی میں جو پذیرائی ملی ہے کیا ایسی پذیرائی اور عوامی مقبولیت اسے کہیں اور بھی حاصل ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس جماعت کے بارے میں تفصیلی معلومات نہیں؛ تاہم ہمارا اندازہ ہے کہ ایسی عوامی پذیرائی گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن کے علاوہ اور کہیں جماعت کے حصے میں نہیں آئی۔لاہور میں جماعت کا مرکز قیامِ پاکستان سے پہلے سے موجود ہے مگر یہاں جماعت کو 1970ء کی دہائی میں تو خاصی عوامی پذیرائی ملی اور اس کے بعد مختلف انتخابات میں معمولی سی جزوی کامیابی حاصل ہوئی‘ مگر یہاں جماعت کبھی تیسرے یا چوتھے نمبر کی وِننگ پارٹی بھی نہ بن سکی۔ یہ تو اہلِ جماعت ہی بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ یہاں جماعت کراچی کی طرح ایک مقبولِ عام پارٹی کیوں نہیں بن سکی۔ لاہور میں جماعت کی ایک بیورو کریٹک قسم کی ڈھیلی ڈھالی تنظیم موجود ہے۔ پتہ مار کر محنت کرنے والا یہاں کوئی کلچر نہیں۔ لاہور میں جماعت کے پاس لیڈر تو بہت ہیں مگر کوئی خادمِ لاہور نہیں۔ یہی حال فیصل آباد وغیرہ کا بھی ہے۔ ہماری رائے میں کچھ عرصے کے لیے نئے امیر جماعت کو لاہور‘ فیصل آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کی تنظیم کو براہِ راست اپنی تحویل میں لینا چاہیے۔ اگر ان شہروں میں جماعت کراچی جیسی مقبولیت حاصل کر لیتی ہے تو یقینا یہ بہت بڑی پیشرفت ہوگی جو انتخابی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
حافظ نعیم الرحمن صاحب کی جماعتی ٹیم کے بارے میں طرح طرح کی پیش گوئیاں اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ حافظ صاحب ماشاء اللہ خود جوان، متحرک اور ''جدید فیس‘‘ ہیں۔ اُن کی ٹیم کے نمایاں افراد بھی اُن جیسے ہی ہونے چاہئیں۔ کئی کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ جماعت کا سیکرٹری جنرل پنجاب سے ہو گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں بعض نام بھی لیے ہیں۔ ہم نام لینا تو مناسب نہیں سمجھتے؛ البتہ صوبہ پنجاب کے تین زونز کے صوبائی امرا نوجوان متحرک قیادت کی ذیل میں آتے ہیں۔ جماعت کا سیکرٹری جنرل ان میں سے منتخب کیا جا سکتا ہے۔
تاہم حافظ نعیم الرحمن صاحب کی ٹیم میں جواں جذبے اور پختہ کار تجربے کا امتزاج ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اکثر جماعتوں میں محض سیاستدان ہیں‘ حقیقی معنوں میں کوئی لیڈر نہیں۔ سیاستدان کی نظر صرف اگلے انتخاب پر ہوتی ہے جبکہ لیڈر کی نظر اگلی جنریشن اور ملک کے مستقبل پر ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے حافظ نعیم الرحمن سیاستدان سے بڑھ کر ایک لیڈر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ جماعت کے دروازے عوام کے لیے کیسے کھولتے ہیں۔ یوں بھی اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے اور لوگ ان جماعتوں سے بدظن ہو رہے ہیں ۔اس وقت ایک ہمہ گیر‘ پیہم رواں دواں‘ مخلص اور خادمِ عوام قیادت کا بہت بڑا خلا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حافظ نعیم الرحمن ملکی سطح پر کون سی حکمت عملی اختیار کر کے اس خلا کو پورا کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے تین شعبے ہیں۔ دعوت‘ خدمت اور سیاست۔ خدمت کا شعبہ ''الخدمت‘‘ کی صورت میں اب جماعت کی تنظیم کا براہِ راست حصہ نہیں۔ الخدمت کو اپنی مثالی کارکردگی کی بنا پر پاکستانی سوسائٹی کے ہر طبقے میں بے پناہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اگر جماعت اسی طرح سیاست اور دعوت کو بھی الگ الگ کر دے تو ہمارے خیال میں اُن کی کارکردگی میں بھی بہت نمایاں اضافہ ہوگا۔ یہ شعبے الگ الگ اور مستقل بالذات ہوں مگر جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کو جواب دہ ہوں۔ ایسی ہی تقسیم کار کئی دوسرے مسلم ملکوں کی اسلامی جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔
بیرونِ ملک سے میرے بعض قارئین نے حافظ نعیم الرحمن کے لیے ایک اور تجویز دی ہے کہ وہ ملک کے اندر اور باہر سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو اپنا ایڈوائزر بنائیں اور جماعتی پالیسی وضع کرتے ہوئے اُن کے اقتصادی‘ سیاسی‘ طبی اور تعلیمی و دیگر امور سے متعلق مشوروں کو پیشِ نظر رکھیں ۔
حافظ نعیم الرحمن کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا وہ ملکی سطح پر اسی طرح عوام کو اپنا گرویدہ بنا سکیں گے جیسے انہوں نے کراچی والوں کے دل موہ لیے ہیں۔ حافظ صاحب کی کراچی میں پندرہ‘ بیس سالہ کارکردگی دیکھ کر ہمیں یہی امید ہے کہ وہ تبدیلی کا یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ البتہ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کی کامیابی کو اگلے انتخاب میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جماعت کی سیٹوں سے ماپا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں