چلتی ٹرین میں ٹریجڈی

ٹرین میں بدترین ٹارچر اور ہولناک مناظر کا سامنا کرنے والی لڑکی اپنی منزل پر پہنچ بھی جاتی تو ٹرین میں یہ اس کا آخری سفر ہوتا‘ مگر گھر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سفرِ زندگی اختتام کو پہنچا دیا گیا۔ اسے بدترین موت سے دوچار کرنے والا کوئی پیشہ ور قاتل تھا نہ ہی کوئی رہزن و ڈاکو۔ وہ امن و امان قائم رکھنے والا قانون کا محافظ تھا۔
بعض درد ناک مناظر کی تصاویر آپ کے حافظے کی دیواروں پر چپک جاتی ہیں۔ آپ انہیں مٹانے‘ ان دیواروں سے کھرچنے اور انہیں بھلانے کی لاکھ کوشش کر لیں وہ وہاں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتیں اور مسلسل آپ کو ہانٹ کرتی رہتی ہیں۔ ٹرین ٹریجڈی والے واقعے کا آغاز تو کراچی سے ہی ہو گیا تھا۔ جہاں پولیس کانسٹیبل کی نظرِ بد دو ننھے بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی لڑکی پر پڑی۔ گاڑی چلی تو وہ اس خاتون کے ڈبے میں آ کر اسے کسی نہ کسی بہانے سے تنگ کرنے لگا۔ خاتون نے اپنا تحفظ کرنے اور ریلوے اہلکار کی کسی طرح کی حوصلہ افزائی کرنے سے انکار کر دیا اور مکمل مزاحمت کا فیصلہ کر لیاتو اس پر کانسٹیبل نے اس لڑکی کو وحشیانہ طریقے سے پیٹا۔ اس نے سوچا ہی نہیں کہ کسی بھی شہری پر ہاتھ اٹھانا قانوناً ممنوع ہے اور کسی مرد کانسٹیبل کوکسی خاتون کو چھونے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اس پولیس والے نے خاتون مسافر پر تھپڑوں کی بارش کی‘ اسے لاتوں اور گھونسوں سے پیٹا اور اسے بندوق کے بٹ مارے‘ دو بندوں کے ساتھ وہ مریم کو گھسیٹتا ہوا دوسرے ڈبے میں لے گیا۔ وہاں حوا کی بیٹی کے ساتھ کیا کچھ ہوا‘ اس کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔
سات اپریل کو مریم بی بی ملت ایکسپریس میں کراچی سے فیصل آباد آ رہی تھی۔ راستے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ آٹھ اپریل صبح چھ بجے بہاولپور پولیس کے ایک اے ایس آئی کی کال مریم بی بی کے بھائی محمد افضل کو جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں موصول ہوئی۔ اے ایس آئی نے کہا کہ تمہاری بہن ٹرین سے گر کر ہلاک ہو گئی ہے‘ آ کر اس کی لاش لے جاؤ۔ بیچارا محمد افضل روتا دھوتا وہاں پہنچا اور پولیس نے لاش اس کے حوالے کر دی۔ محمد افضل کا کہنا ہے کہ اس وقت تک ہمیں اس المناک واقعے کے پس منظر کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ہم نے راضی برضا ہو کر اپنی بہن کی لاش کو رات گئے دفنا دیا۔ دو دِنوں کے بعد محمد افضل نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وہ ویڈیو دیکھی جس نے چاروں طرف کہرام برپا کر دیا تھا۔ اس ویڈیو میں وہ سب کچھ پولیس کانسٹیبل میر حسن کو کرتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے‘ جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔
اپنے تحفظ کے لیے کانسٹیبل نے اسی طرح کی ایک فیک سٹوری بنا لی ہے کہ جس طرح کی جھوٹی کہانیاں ایسے مواقع پر عموماً اپنے تحفظ کے لیے گھڑ لی جاتی ہیں۔ میر حسن کا کہنا یہ ہے کہ اس خاتون مسافر کا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ وہ مسافروں کو تنگ کر رہی تھی جبکہ کراچی میں مریم کے پڑوسیوں اور اس کے مالک مکان کا کہنا ہے کہ وہ ایک معزز خاتون تھی۔ چھ برس سے محمودہ آباد میں رہائش پذیر تھی۔ سب اس سے خوش تھے اور کبھی کوئی ایسی شکایت نہیں آئی کہ جس سے اندازہ ہو کہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو خاتون کوٹرین میں ہی ٹھکانے لگا دیا گیا تھا یا پنجاب کی حدود میں پہنچ کر اسے ویرانے میں دھکا دے دیا گیا تھا۔ ہر دو صورتوں میں بظاہر ریلوے پولیس اہلکار میر حسن مجرم دکھائی دیتا ہے۔ اس کیس کی آزادانہ عدالتی تحقیق ہونی چاہیے۔
ایک اعلیٰ خاتون افسر سے پوچھا کہ حقیقت حال کیا ہے؟ اس افسر نے بتایا کہ پولیس کی طرف سے ہمیں ذہنی توازن کے خراب ہونے جیسی رپورٹیں مل رہی ہیں مگر ہم ایک حقیقی غیرجانبدارانہ انکوائری کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے خاتون افسر سے پوچھا کہ اگر پولیس کی کہانی کو سچا مان بھی لیا جائے تو کیا پولیس کا قانون اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قانون ایک مرد پولیس کانسٹیبل کو ایک عورت پر یوں وحشیانہ تشدد کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ ریلوے کی خاتون افسر نے کہا کہ ہرگز نہیں۔
ٹرین ٹریجڈی دیکھ کر مجھے ستمبر 2020ء کی وہ ہولناک رات یاد آ گئی۔ جب رات گئے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ایک نہتی عورت اپنی گاڑی میں دو بچوں کے ساتھ مدد کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کی گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا تھا۔ اس نے موٹر وے پولیس کی ہیلپ لائن پر رابطہ کیا تو اسے جواب ملا کہ موٹروے کا یہ حصہ ہماری حدود میں نہیں آتا۔ پولیس کی اس غفلت کی خاتون کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ اسی دوران دو بدبخت آئے اور وہ خاتون اور اس کے بچوں کو موٹروے سے نیچے جنگل میں لے گئے وہاں انہوں نے بدقسمت عورت کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کی اور پھر خاتون کی گاڑی سے جیولری اور رقم وغیرہ سب کچھ لے گئے۔ دوسرے روز جب یہ خبر سامنے آئی تو پھر پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں یہ بریکنگ نیوز بن گئی۔
ایک لحاظ سے ہم ٹرین ٹریجڈی کو موٹروے ٹریجڈے سے بھی زیادہ سنگین سمجھتے ہیں کیونکہ موٹروے والا انتہائی افسوسناک واقعہ آدھی رات کو ایک ویران سڑک پر پیش آیا تھا‘ جبکہ ٹرین والا ہولناک واقعہ چلتی گاڑی کے ڈبے میں موجود درجنوں مسافروں کے سامنے پیش آیا۔ کیا دیگر مسافر اتنے بے حس اور بے بس تھے کہ انہوں نے وحشی کانسٹیبل کو نہیں روکا یا وہ پولیس سے اتنے خوفزدہ تھے کہ اگر بولے تو کہیں پولیس والا انہیں بھی تشدد کا نشانہ نہ بنا ڈالے۔
یہ واقعہ ایک آئینہ ہے کہ جس میں ہم سوسائٹی اور سکیورٹی کا بھیانک چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ انہی دنوں کراچی ایئر پورٹ پر پہلے ایک بچی کی وڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں سکیورٹی افسر نے ننھی منی بچی‘ کہ جو بیرونِ ملک سے آنے والے والد کو دیکھ کر دوڑ پڑی‘ اسے بالوں سے پکڑ کر دھکا دیا جس سے بچی فرش پر جا گری۔ اس بے حس سکیورٹی افسر کو کچھ محسوس نہ ہوا کہ اس نے معصوم بچی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ انہی دنوں ایک اور بھی وڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں پانچ چھ ایئر پورٹ سکیورٹی والے بیرونِ ملک سے آنے والے ایک نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ تھپڑوں‘ مکوں اور ٹھڈوں سے اس کی تواضع کی اور پھر اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے دفتر لے گئے۔ ماں بڑے شوق سے نوجوان کو اپنا ملک دکھانے لائی تھی جہاں اس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ ایک آبزرویشن یہ بھی ہے کہ پاکستانی پولیس تو روایتاً ہی اپنی من مانی کرنے کی شہرت رکھتی ہے مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران پولیس کو بوجوہ مزید فری ہینڈ دے دیا گیا جس کی بنا پر اسے جوابدہی کا کوئی احساس ہی نہیں۔ کسی مہذب ملک میں اگر کوئی قانون کا محافظ جرم کرتا ہے تو اسے اس جرم کی دو گنا سزا ملتی ہے۔
گھر آنے کی خوشی میں نہال مریم کو جس بے دردی سے قتل کرکے ویرانے میں پھینک دیا گیا اس پر ہچکیاں لے لے کر رونے والی ماں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ وہ انہیں انصاف دلوائیں۔ مریم نواز بطورِ خاص خواتین کے لیے دلِ درد مند رکھتی ہیں۔ چونکہ لڑکی کی موت سرزمینِ پنجاب پر واقع ہوئی ہے اس لیے پنجاب حکومت اس مظلوم خاندان کی طرف سے خود مدعی بن جائے اور وحشی کانسٹیبل کو قرار واقعی سزا دلوا کر اسے نشانِ عبرت بنا دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں