امریکہ: ذرا میں زخم لگائے‘ ذرا میں دے مرہم

تین چار سال قبل مجھے پاک امریکہ تعلقات کے سلسلے میں یونیورسٹی آف ایلنائے کے ایک سیمینار میں اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ سیمینار ہال امریکی اور دیگر کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات اور پروفیسرز سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر عرض کیا کہ تخلیقِ پاکستان کے بعد نوزائیدہ اسلامی ریاست کو تسلیم کرنے میں امریکہ پیش پیش تھا۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ ایک مخلص دوست کی طرح دیا مگر امریکہ کا پاکستان سے رویہ بڑا دلچسپ رہا۔ جب امریکہ کو بوجوہ پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے تب وہ ایک یارِ طرحدار کی مانند اپنے مخلص دوست کی طرف مائل ہوتا ہے اور جب اس کے خطے میں وقتی نوعیت کے علاقائی و تزویراتی مقاصد مکمل ہو جاتے ہیں تو وہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ میں نے دوطرفہ تعلقات کی تاریخ سے اس امریکی رویے کی کئی مثالیں پیش کیں اور بتایا کہ یہ تعلقات موسموں کی طرح گرم جوشی سے سرد مہری میں بدلتے رہتے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے میں نے ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا جس کو بہت سراہا گیا۔
ذرا میں زخم لگائے‘ ذرا میں دے مرہم
بڑے عجیب روابط مرے صبا سے ہیں
1978ء میں افغانستان میں روسی مداخلت کی بنا پر حکومتیں درہم برہم ہو رہی تھیں۔ اُن دنوں روس نے تقریباً اسی طرح افغانستان پر قبضہ کر لیا جس طرح وہ اس سے پہلے ٹینکوں سے کئی یورپی ملکوں پر قبضہ کر چکا تھا۔ تب پاکستان میں ضیا الحق صاحب کا دورِ حکومت تھا۔ ضیا الحق صاحب نے اُس موقع پر سوویت فوجوں کو افغانستان سے باہر نکالنے اور پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی شمالی سرحد میں کمیونزم کی یلغار کو روکنے کے لیے امریکی اعانت کو غیبی امداد سمجھا۔ دس گیارہ برس تک افغان مجاہدین نے امریکی امداد سے انہونی کو ہونی ثابت کر دکھایا۔ افغانستان میں ملنے والی ہزیمت کی بنا پر روس کو زبردست فوجی و اقتصادی نقصان پہنچا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ 1987ء کے اواخر اور 1988ء میں روس افغانستان سے نکل گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ اُس وقت افغانستان میں دلچسپی لیتا اور وہاں ایک متحدہ سیاسی حکومت قائم کروانے میں بھرپور کردار ادا کرتا مگر اس کے برعکس امریکہ نہ صرف افغانستان بلکہ سارے خطے کو متحارب جہادی گروپوں کے حوالے کرکے یہاں سے نکل گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو 2001ء میں پھر پاکستان کی ضرورت پڑی اور وہ پھر مائل بہ کرم ہو گیا۔ اسی طرح اب تک زخم لگانے اور مرہم پیش کرنے کا رویہ جاری ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ‘ جو تقریباً ایک ہفتے تک امریکہ میں مقیم رہے اور وہاںصبح شام میٹنگز پر میٹنگز کرتے رہے‘ انہوں نے اہلِ وطن کو خوش خبری سنائی ہے کہ ''پاکستان سے متعلق امریکی رویے میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے‘‘۔ امریکہ نے پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ عالمی اداروں کے ساتھ ملاقاتیں مثبت رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی اچھی خبریں ملیں گی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان عنایات کے پیچھے کیا امریکی مقاصد کارفرما ہیں؟ پاک امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں امریکہ ہندوستان کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کچھ بھی چاہے مگر پاکستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وہ کچھ کرنا چاہیے جو اس کے اپنے مفاد میں ہے۔ 21 اپریل کو چین کی وائس منسٹر سن ہائی ین نے کہا کہ چند عناصر سی پیک اور ہمیں روکنا چاہتے ہیں۔ اس تشویش کا اظہار کرنے کے بعد چینی وائس منسٹر نے کہا کہ چین اور پاکستان مل کر ان مسائل کو حل کر لیں گے۔ ذرا اس پس منظر کے ساتھ یہ خبر ملاحظہ کیجئے کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف چین کے چار روزہ دورے پر 22 اپریل کو چین روانہ ہو گئے ہیں۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سینئر عہدیداروں اور بعض بڑے تاجروں سے ملاقات کریں گے۔
ابھی ہمارے وزیر خزانہ اور پاکستانی حکام مالی تعاون کی امریکی یقین دہانیوں کے گُن گا رہے تھے کہ پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں ہماری زخم اور مرہم تھیوری ایک بار پھر اجاگر ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ 20 اپریل کو امریکہ نے چین کی تین اور بیلا روس کی ایک کمپنی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے آلات فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان نے برآمدی کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکی اقدامات سے واقف نہیں۔ ماضی میں بھی بغیر ثبوت الزام لگتے رہے ہیں۔ امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ ان چار کمپنیوں کو نامزد کر رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل میں ملوث ہیں۔ امریکہ کا دہرا معیار ملاحظہ کیجئے کہ اب تک یہ سپر پاور اسرائیل کو غزہ میں جنگ کیلئے تین ارب ڈالرز کے انتہائی مہلک ہتھیار فراہم کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت کی سفارش پر ایوانِ نمائندگان نے تباہی و بربادی پھیلانے والے اسرائیل کی ہنگامی امداد کے لیے 26 ارب ڈالر کی خطیر رقم اسے بھیجی ہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی اپنے عروج پر رہی۔ یکم اپریل کو اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر شدید نوعیت کا فضائی حملہ کیا جس میں ایران کی انقلابی کونسل کے سات ممبران اپنے کمانڈر سمیت جاں بحق ہو گئے۔ اس کے جواب میں چند روز کے بعد ایران نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات پر ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس حملے کا مقصد کشیدگی بڑھانا یا تباہی پھیلانا نہیں بلکہ اسرائیل کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ہم یہاں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ایرانی حملے کا اسرائیل نے جواب الجواب لو پروفائل دیا جسے ایران نے ناکام حملہ قرار دیا ہے۔ اسرائیل جب تک غزہ میں خون کی ہولی کھیلنا بند نہیں کرتا‘ اس وقت تک کسی سمے بھی پورے علاقے میں آگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی پر مجبور کرنے کے بجائے ایران اور اس کے ساتھ تجارت کرنے والے ملکوں پر نئی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ اس پس منظر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا پاکستان میں تین روزہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پیر کے روز ایرانی صدر نے اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے وزرائے تجارت نے دس ارب ڈالر کے دوطرفہ تجارتی معاہدے پر دستخط ثبت کیے۔
یہ پاکستان کی سفارتی اہلیت اور مہارت کا بہت بڑا امتحان ہے۔ ایک طرف امریکہ کی طرف سے آتا ہوا مالی تعاون ہے۔ دوسری جانب چین کی طرف سے پاکستان کا گیم چینجر تحفہ سی پیک ہے اور تیسری طرف ہماری سرحدوں سے ملے ہوئے برادر مسلم ملک کے ساتھ صدیوں پرانے اسلامی و ثقافتی اور تجارتی تعلقات کی تجدید نو ہے۔ پاکستان تینوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کی گرم جوشی اور معنویت کو کیسے برقرار رکھتا ہے؟ امریکہ نے مالی تعاون کی جھلک دکھانے کے ساتھ ہی بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے لیے چینی کمپنیوں سے پرزے لینے کے الزامات بھی پاکستان پر عائد کر دیے ہیں۔
گویا پھر حسبِ روایت پاکستان اور امریکہ کے درمیان عجیب روابط ہیں‘ بقول شاعر
ذرا میں زخم لگائے‘ ذرا میں دے مرہم
بڑے عجیب روابط مرے صبا سے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں