غریبوں کی تعلیم‘ سولر اور آزادیٔ اظہار بند

دنیا کا ہر امیر اور غریب ملک بارہویں جماعت تک قوم کے بچوں کو تعلیم دینا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ ہر ملک اپنی قوم کے بچوں کی سکول ایجوکیشن‘ بالخصوص پرائمری تعلیم پر زیادہ سے زیادہ بجٹ صرف کرتا ہے۔ ہم نے آج تک امریکہ و یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر افریقہ کے انتہائی مفلوک الحال ملکوں تک کسی حکومت کو سرکاری سکول آؤٹ سورس کرتے نہیں دیکھا۔
دو تین روز قبل کے اخبارات میں پنجاب کے 30 ہزار پرائمری سکولوں کی دو برس میں مرحلہ وار نجکاری اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ اساتذہ کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی خبر چھپی‘ جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے حکومت کو 1500 ارب روپے کی بچت ہو گی اور صرف 25 ارب روپے سے ان سکولز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے چلایا جائے گا۔ اس خبر نے بجلی بن کر ہمارے خرمنِ دل کو جلا ڈالا۔ ہمارے حکمران انتہائی درجے کے انحطاط اور ذہنی و فکری افلاس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر بچے کی دسویں تک لازمی اور مفت تعلیم ہمارے دستور کا حصہ ہے۔ آپ بنیادی تعلیم کا دروازہ اپنے عوام پر ہرگز بند نہیں کر سکتے۔ قوم کے بچے حکمرانوں کے بچے تصور ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم کا بندوبست حکمرانوں کی اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ جس کسی نے بھی روپے پیسے بچانے کے لیے پرائمری تعلیم کو آؤٹ سورس کرنے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے حوالے کرنے کی بات کی ہے اور پنجاب کی چیف منسٹر صاحبہ کو یہ راستہ دکھایا ہے‘ اس نے سب سے بڑے صوبے کی حکومت اور پنجاب کے عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق کیا ہے۔
سرکاری سکول شہروں اور دیہات میں غریب بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کا فریضہ نہایت اخلاص کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اگر ان سکولوں کو منافع بخش انجمنوں کے حوالے کر دیا جائے گا اور وہ اپنی مرضی کی فیسیں لیں گے اور دو چار میٹرک‘ ایف اے پاس اساتذہ سے کام چلائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پنجاب حکومت غریب بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر رہی ہے۔ یوں تو وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ رات دن پنجاب کے عوام کی خدمت کا چرچا کرتی رہتی ہیں مگر یہ سب باتیں محض زبانی جمع خرچ ہیں۔ ہمارے حکمران سیر و سیاحت کے لیے اکثر یورپ جاتے رہتے ہیں۔ وہاں معلوم تو کریں کہ ناروے‘ سویڈن‘ ڈنمارک اور فن لینڈ وغیرہ میں سرکار پرائمری کے بچوں کو پڑھانے کے لیے پی ایچ ڈی اساتذہ کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ پرائمری ہی سے تو بچوں کی اعلیٰ تعلیمی بنیاد رکھی جاتی ہے اور انہیں قانون پسندی‘ ڈسپلن پر عملداری اور ٹیم ورک کی تربیت دی جاتی ہے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ جب پنجاب میں برسراقتدار آئیں تو ہم نے اُن کی خدمت میں انہی کالموں کے ذریعے یہ گزارش کی تھی کہ وہ تعلیم‘ صحت اور امن و امان کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ سرکاری سکولوں میں اگر کچھ نقائص ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انہیں فروخت کر دیا جائے۔ ان نقائص کو دور کر کے قوم کے ہر بچے کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔ پرائمری تعلیم کو آؤٹ سورس کرنے کا آئیڈیا دیسی ہے یا بدیسی‘ اسے فی الفور پسِ پشت ڈال دینا چاہیے۔ اگر حکمران ایسا نہیں کریں گے تو یہ کھلی آئین شکنی اور پنجاب کے غریب عوام کی دل شکنی ہو گی۔ پنجاب میں بچوں کی اکثریت انہی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ دیکھیے یہ کیسا تضاد ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحبہ کے عمِ محترم نے ابھی چند روز پہلے ہی فرمایا تھا کہ وہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچوں کو سکولوں میں لائیں گے۔ جب آپ پہلے سے سکولوں میں موجود بچوں پر ہی تعلیم کے دروازے بند کر دیں گے تو نئے بچوں کو کن سکولوں میں داخلہ دیں گے۔
اُدھر نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے بھی طرح طرح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت نے سولر لگانے کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی‘ اس کے لیے آسان قرضے دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اب بعض حلقوں کی طرف سے سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت نیٹ میٹرنگ کو ختم کر رہی ہے۔ جو قارئین کرام نیٹ میٹرنگ کے پروسیجر سے واقف ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ آپ پندرہ‘ بیس لاکھ روپے خرچ کر کے سولر لگواتے ہیں۔ یہ پینلز جتنی بجلی پیدا کرتے ہیں وہ آپ حکومت کو فروخت کر دیتے ہیں۔ یہاں لینے کے باٹ اور‘ دینے کے باٹ اور ہیں۔ ہمارے ایک عزیز جس بستی میں مقیم ہیں وہاں انہوں نے گھر کی چھت پر درمیانے درجے کا سولر لگوا رکھا ہے۔ ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں حکومت بجلی 22روپے فی یونٹ خریدتی اور 62روپے فی یونٹ صارف کو واپس دیتی ہے۔ اب اگر حکومت میٹرنگ بند کر دے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سولر پینلز سے بننے والی بجلی سٹور نہیں ہو گی لہٰذا سولر والے رات کے وقت واپڈا سے اسی ریٹ پر بجلی خریدیں گے جس ریٹ پر عام صارف خریدتے ہیں اس طرح اُن سفید پوشوں کو سولر لگوانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جنہوں نے کچھ اِدھر ادھر سے قرض لے کر اس امید پر یہ کام کر لیا تھا کہ اب وہ ایک دو اے سی بے دھڑک چلائیں گے اور ان کا اول تو بل آئے گا ہی نہیں اور اگر آئے گا تو بہت کم ہوگا۔ کچھ وزرا کہتے ہیں کہ یہ سہولت ختم کر دی جائے؛ البتہ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے اس کی تردید کی ہے کہ ہم نیٹ میٹرنگ ختم نہیں کر رہے۔ جب حکومتوں کا اعتبار اُٹھ جائے تو پھر عوام کو ان کے کہے پر مشکل ہی سے یقین آتا ہے۔ حکومت یکم جولائی سے مزید 5.7روپے فی یونٹ بجلی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت بجلی چوری‘ بجلی سسٹم کے نقصانات اور بڑی فیکٹریوں کو دی جانے والی رعایتوں کا بوجھ بھی بے چارے سفید پوش صارفین پر ڈال دیتی ہے۔
دوسری طرف آج کل پنجاب میں ہتکِ عزت بل کا بڑا چرچا ہے۔ اس بل کے بارے میں حکومتی نمائندوں نے صحافیوں کی اہم ترین تنظیموںکو صلاح مشورے کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس بل کے مطابق مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کی جس تحریر یا کلپ کے بارے میں حکمران یہ سمجھیں گے کہ اس میں ان کی ہتک کا پہلو نکلتا ہے تو اس پر ان کے خلاف مقدمہ بنے گا اور ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر‘ ایڈووکیٹ جنرل اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور ورکنگ جرنلسٹ تنظیموں کے سنیئر ذمہ داران کے ساتھ اجلاس میں وعدہ کیا تھا کہ وہ فوری طور پر بل کو پاس نہیں کروائیں گے اور صحافی حضرات کی پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں نیا ڈرافٹ ترتیب دے کر اسے منظور کروائیں گے۔ صحافی حضرات اجلاس سے واپس جاتے ہوئے ابھی راستے میں تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ حکومت نے وعدے کے برخلاف بل منظور کروا لیا ہے۔ گویا یہاں بھی حکومت نے اپنا اعتبار قائم نہیں رکھا۔ اب صحافی حضرات ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں اور ملکی سطح پر ہتکِ عزت بل کی مخالفت کی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ گورنر پنجاب سردار سلیم خان بل کو نظر ثانی کے لیے واپس پنجاب اسمبلی بھیج سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی اس بل کو غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ جب یہی حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے سب سے بڑے دعویدار ہوتے ہیں مگر جب وہ برسراقتدار آ جاتے ہیں تو پھر نہ صرف اُن کا زاویۂ نگاہ ہی نہیں بدلتا بلکہ اُن کا نقطۂ نظر بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں