ایک مسافر، بلالی دنیا میں!

کینیا میں سات روزہ قیام کے بعد ساؤتھ افریقہ کی طرف عازمِ سفر ہوں۔ اس وقت میں کینیا اور ساؤتھ افریقہ کے درمیان معلق، نیروبی کے جومو کینیاٹا ایئرپورٹ پر اپنی ڈائری کے یہ اوراق لکھ رہا ہوں۔ کینیا کی یادیں اور ساؤتھ افریقہ کے خواب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ انھی خیالات کا تانا بانا بنتے ہوئے مسافروں کی انتظارگاہ میں گیا تو سوچا کہ اب وضو اور نماز کی فکر کرنی چاہیے۔ بیت الخلا کی طرف گیا تو وہاں صفائی کرنے والے لڑکے نے سواحلی زبان میں مجھے خوش آمدید کہا، میں نے بھی اسے سواحلی ہی میں جواب دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ اس کا تعلق کس شہر سے ہے تو اس نے بتایا کہ وہ کسومو سے تعلق رکھتا ہے۔ وکٹوریا جھیل کے کنارے مغربی کینیا کا یہ شہر ایک صوبے کا صدرمقام اور گنے کا مرکز ہے۔ کینیا میں چینی کی پیداوار اسی علاقے کی مرہون منت ہے۔ یہاں بندرگاہ بھی ہے۔ یہاں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اس افریقی نوجوان سے کہا ‘تمھاری زبان میں مٹھاس اسی وجہ سے ہے کہ تم گنے اور شکر کے علاقے سے تعلق رکھتے ہو۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور میرے لیے ٹشو پیپر لے کر آیا۔ میں نے وضو کیا، پھر ٹشو پیپر سے اپنے اعضا خشک کیے اور اسے بتایا کہ ہم مسلمان نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرتے ہیں، جو طہارت اورپاکیزگی کی علامت ہے۔ 
نوجوان کسی حد تک مجھ سے مانوس ہوگیا۔ پھر اس نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں کچھ جانتا نہیں ہوں، مگر مسلمانوں سے واقف ہوں جو ہمارے علاقے میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا آپ جیسے خوش اخلاق نوجوان کو مسلمان ہوجانا چاہیے۔ یہ سن کر وہ مثبت انداز میں سر ہلانے لگا، پھر مسکرا کر خاموش ہوگیا۔ مٹھاس زبان میں ہو یا ماکولات و مشروبات میں بہت اچھی لگتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ہر دوسرے شخص کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ہے اور وہ اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ تاہم دل یہی چاہتا ہے کہ ضرور کوئی میٹھی چیز کھا لیں۔ میں نے اس افریقی نوجوان کو کیا دینا تھا۔ بس یہی چند میٹھے بول تھے جس سے وہ خاصا خوش ہوگیا۔ تاہم اسے مسلمان ہونے کی دعوت شاید پہلی بار ہی دی گئی ہوگی۔ اس کے گردونواح میں جو مسلمان رہتے ہیں، ان کو دیکھ کر ہوسکتا ہے کہ اسلام کی طرف آنے میں اسے ہچکچاہٹ ہو۔ زبانی دعوت سے زیادہ عملی زندگی انسان کو متاثر کرتی ہے۔ بہرحال میری باتیں سن کر بڑی اپنائیت کے ساتھ مسکرایا اور پھر خاموش ہوگیا۔ 
اب میں دوبارہ انتظارگاہ میں گیا تو دیکھا کہ روانگی کے ایک کاؤنٹرپر ایک مسلمان لڑکی سرپہ سکارف لیے ہے۔ عموماً صومالی اور سواحلی بچیاں حجاب کرتی ہیں خواہ وہ کہیں بھی ملازمت کررہی ہوں۔ یہ بچی نہ صومالی تھی نہ سواحلی بلکہ کسی افریقی قبیلے کیکویو، مکامبا ، ایمبو ، لواویا میروسے اس کا تعلق لگتا تھا۔ اس کے سر پہ سکارف دیکھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ میں نے اس کو سلام کہا تو اس نے بہت پرتپاک انداز میں سلام کا جواب دیا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا قبلہ کس طرف ہے تو اس نے میری رہنمائی کی۔ اسی دوران ایک افریقن ملازم جو ہماری گفتگو سن رہا تھا، میرے قریب آیا اور خوش گوار انداز اور انگریزی زبان میں کہنے لگا کہ آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں نا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے کہا‘ آپ لوگ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں، میںنے کہا بالکل۔ ساتھ ہی میں نے اس سے پوچھا برخوردار! آپ کب نماز پڑھنا شروع کریں گے؟ تو اس نے کہا‘ میں سوچ رہا ہوں کہ اسلام کا مطالعہ کروں اور ہوسکتا ہے کہ بہت جلد میں نمازیں پڑھنے لگوں۔ سفر کے دوران بالخصوص غیر مسلم علاقوں میں قبلے کا تعین بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی مسافر اپنے پاس مستقل طور پر قبلہ نما رکھتے ہیں۔ اس سے کافی سہولت ہوجاتی ہے۔ مدت ہوئی، میں نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ 
میں نے اس نوجوان کو دعا دی تو اس نے کہا ہمیں افسوس ہے کہ یہاں ایئرپورٹ کے اندر عبادت کے لیے کوئی جگہ مختص نہیں ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں، اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا‘ آئیے میں آپ کو ایک صاف ستھری جگہ پر لے چلتا ہوں۔ وہ مجھے ایک کونے میں لے گیا جس کا فرش واقعی بہت صاف شفاف تھا۔ میں عموماً اپنے بریف کیس میں چھوٹا سامصلّٰی رکھا کرتا تھا کہ کسی غیرمسلم ملک میں یوں ہنگامی طور پر نماز پڑھنی پڑے تو کام آجائے، مگر اب میرے پاس مصلّٰی نہیں تھا۔ میں نے اپنا کوٹ اتارا، اسے فرش پر بچھاکر جانماز بنایا اور نماز ادا کرلی۔ اسلامی شریعت میں ہمارے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بڑی سہولیات فراہم کی ہیں۔ اللہ نے نبی پاکؐ اور آپؐ کی امت کے لیے ساری زمین کو مسجد بنا دیا ہے۔ 
اب جہازکا انتظار تھا۔ تھوڑی دیر میں اعلان ہوا کہ ساؤتھ افریقن ایئرلائن کے ذریعے جوہانسبرگ جانے والے مسافر اپنے سامان کی چیکنگ کرواکے اندرونی انتظار گاہ میں چلے جائیں۔ سامان کی چیکنگ اور دیگر لوازمات کے بعد ہم اندرونی انتظار گاہ میں چلے گئے۔ آج صبح میں نے کینیا کی دونوں سمیں واپس کر دی تھیں، لہٰذا میرے پاس کوئی ٹیلی فون نہیں تھا۔ ایئرپورٹ کے اندر ایک سردار صاحب کی دکان سے معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں کوئی سم نہیں مل سکتی۔ میرے ساتھ والی نشست پر ایک صومالی نوجوان بیٹھے تھے ۔ ان سے علیک سلیک ہوئی اور ہم نے ایک دوسرے کا نام پوچھا۔ ان کا نام عبدالرازق تھا اور وہ اپنے فون پر کسی سے بات کررہے تھے۔ میں نے اپنے موبائل سیٹ میں سے راؤ صاحب کا نمبر نکال کر ان سے درخواست کی کہ اس نمبر پر مس کال دے دیں تو اس طرف سے فون آجائے گا۔ انھوںنے کہا کہ مس کال کی کیاضرورت ہے، میں فون کردیتا ہوں، آپ بات کرلیں۔ 
اس خوش اطوار نوجوان نے فون ملایا، راؤ صاحب سے بات چیت ہوئی۔ میں نے کہا کہ اب ان شاء اللہ تھوڑی دیر میں جہاز میں بیٹھنے والے ہیں۔ آپ ساؤتھ افریقہ میں دوستوں کو دوبارہ یاددہانی کرادیں۔ نیز جس فون کے ذریعے آپ سے بات کررہا ہوں، یہ جناب عبدالرازق صومالی کا فون ہے، جن سے یہیں ملاقات ہوئی ہے۔ وہ بیک وقت برطانیہ، کینیا اور ساؤتھ افریقہ کے مکین ہیں۔ ساؤتھ افریقہ میں ان کا کاروبار ہے، جبکہ ان کی ایک فیملی (بیوی بچے) نیروبی میں اور دوسری برطانیہ میں مقیم ہے۔ ان کا نمبر نوٹ کرلیں اور ان سے رابطہ رکھیں۔ یہ آپ کے لیے ان شاء اللہ ایک اثاثہ ثابت ہوں گے۔ عبدالرازق نے بتایا کہ وہ پاکستان بھی گیا تھا ،لیکن صرف کراچی اور اسلام آباد۔ اسے لاہور جانے کا اتفاق نہیں ہوا، مگر لاہور دیکھنے کا شوق بہت ہے۔ میں نے اسے اپنا کارڈ دیا اور کہا کہ آپ جب بھی آنا چاہیں ان شاء اللہ ہم آپ کا استقبال کریں گے۔ 
باتوں باتوں میں عبدالرازق نے کہا کہ میرا آبائی ملک صومالیہ اور آپ کا وطن پاکستان دونوں مسلمان ملک ہیں، مگر بدقسمتی سے دونوں کے اندر امن وامان کی حالت اتنی خراب ہے کہ وہاں جانے کا تصور کرکے خوف آنے لگتا ہے۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر اللہ کا شکر ہے کہ وہاں خانہ جنگی اور ابتری کی وہ حالت نہیں جو صومالیہ میں ہے۔ کوششیں ہورہی ہیں کہ پاکستان کو پرامن بنایا جائے، مگر ہمارے دشمن، اسلام کے دشمن ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ بہرحال ہماری کاوش بھی ہے اور دعا بھی کہ ہم ان مشکلات پر قابو پاسکیں۔ بھارت امریکہ اور اسرائیل ہمارے دشمن ہیں۔ اسی طرح آپ کے خلاف بھی امریکہ کئی ممالک اور قوتوں کو استعمال کرتا رہتا ہے۔ آپ کے ہاں حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ ہمارے ہاں الحمدللہ ایسی کیفیت نہیںہے۔ 
اسی گفتگو کے دوران جہاز پر سوار ہونے کا اعلان ہوا تو ہم دونوں ایک ساتھ چل پڑے۔ عبدالرازق کی نشست مجھ سے کہیں دور تھی۔ دورانِ پرواز اور جہاز سے اترنے کے بعد بھی بدقسمتی سے دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی۔ جہاز میں میرے ساتھ ایک سفید فام جوڑا بیٹھا تھا، مگر سیٹوں کی ترتیب یوں تھی کہ میں کھڑکی والی سیٹ پر تھا اور درمیانی سیٹ پر خاتون براجمان تھی۔ ہرچند کہ وہ عمر رسیدہ خاتون تھی، مگر مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ دوران سفر میں نے دیکھا کہ دونوں میاں بیوی انگریزی کتابیں پڑھنے میں پوری طرح منہمک تھے۔ بوڑھی نسل کے لوگ اب تک کتابوں سے وابستہ ہیں، جبکہ نئی پود اب لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی اسیر ہوچکی ہے۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں رہتے ہیں تو اس نے بتایا کہ جوہانسبرگ میں۔ پھر میں نے پوچھا کہ کہاں کہاں کا سفر کیا ہے؟ تو بتانے لگیں کہ اس مرتبہ تو مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کا سفر درپیش تھا۔ اس سے قبل کئی ملکوں میں ہم جاچکے ہیں، یہ ایک یہودی جوڑا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں