حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا عکس دیکھنا ہو تو صحابہ کرام کی زندگیاں اس کی بہترین مثال ہیں۔ جب صحابہ کرام کسی مشکل سے دوچار ہوئے تو ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی، اس کی وجہ یہی ہے کہ ان صحابہ کرام کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت کا فیضان حاصل تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود دنیا میں مسافر بن کر رہے اور قیامت کی کامیابی پر نظر رکھی۔ صحابہ کرام بھی مکمل طور پر اسی سانچے میں ڈھل گئے تھے۔ ابتلا و امتحان اور مصائب و مشکلات ان کے امتحان میں اضافہ کا باعث بنتے تھے، کسی کمزوری کا پیش خیمہ نہیں۔ ؎
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
یہی روح آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کے دلوں میں بھی پھونکی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہؓ بھی بدترین قسم کی اذیت و ابتلا سے گزرے مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ بلالؓ کو سنگلاخ وادیوں میں پائوں میں رسّی باندھ کر گھسیٹا گیا۔ خبابؓ کو دہکتے انگاروں پر لٹایا گیا۔ عمارؓ کو پانی میں غوطے دیے گئے۔ عثمان بن عفانؓ کو کھجور کی چھڑیوں سے لہولہان کیا گیا۔ سمیہؓ کو شہید کر دیا گیا مگر صحابہؓ نے نبی رحمتؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
حضرت خبیب بن عدیؓ کو جب اہل مکہ نے تختۂ دار پر لٹکایا تو اس سے پہلے کھلے میدان میں مجمعٔ عام کے سامنے ان کو اذیتیں بھی پہنچائیں مگر مجال ہے جو ان کے پائے استقلال میں لغزش آئی ہو۔ اس موقع پر آپؓ سے پوچھا گیا کہ اب تو تُو چاہتا ہو گا کہ اس وقت محمدؐ تیری جگہ ہو اور تو بخیریت اپنے اہل و عیال کے درمیان ہو۔ اس کے جواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابی بولے: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بات بھی پسند نہیں کہ میرے محبوب کو ایک کانٹا چبھے اور اس کے بدلے میں مَیں اپنے اہل و عیال کے درمیان دنیا کی نعمتوں سے متمتع ہو رہا ہوں۔ آخر وقت میں عاشق رسول نے اللہ سے یہ دعا کی کہ اے اللہ! تیرے رسول کا پیغام ان لوگوں تک ہم نے پہنچا دیا۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بیتا، اس سے تو اپنے رسول کو مطلع کر دے۔ اللہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کا سلام پہنچایا اور خبیبؓ پوری پامردی کے ساتھ اسلام کی قوت و حشمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنت الفردوس کو سدھار گئے۔
یہ ایک شہید وفا کی داستان تھی۔ یہاں ہم چاہتے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ میں سے ایک مجاہد اور غازی کا تذکرہ بھی کریں جو موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابی حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کا واقعہ ہے۔ آپؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ انھیں روم اور ایران دونوں سوپر طاقتوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کسریٰ ایران کے پاس تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر گئے تھے اور اس بدبخت نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پھاڑ دیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عقیدت کی وجہ سے حضرت عبداللہؓ کو یہ واقعہ دیکھ کر انتہائی سخت صدمہ ہوا یہاں تک کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر باچشمِ تر اس واقعہ کی رپورٹ پیش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ کسریٰ نے میرا خط نہیں پھاڑا بلکہ اس نے اپنی سلطنت کے ٹکڑے کر دیے ہیں۔ یہی عبداللہ بن حذافہ ان فوجوں میں شامل تھے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں رومیوں سے نبرد آزما تھیں۔ وہ بہادر جنگ جو تھے۔ میدان سے پیچھے ہٹنا ان کی لغت میں نہیں تھا۔ ایک معرکے میں یہ کچھ صحابہ کے ساتھ رومیوں کے ہاتھ میں جنگی قیدی بن گئے۔ ان اہلِ ایمان کی تعداد اسّی کے قریب تھی اور حضرت عبداللہ بن حذافہؓ ان میں سب سے نمایاں اور مشہور تھے۔
ان اسیروں کو شہنشاہِ روم کے دربار میں پیش کیا گیا۔ وہ حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کو دیکھ کر ان کی شخصیت سے متاثر ہوا اور اس نے انھیں عیسائیت اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اس پیش کش کے ساتھ اس نے بہت بڑا لالچ بھی دیا لیکن حضرت عبداللہ بن حذافہؓ نے اس دعوت کو یکسر ٹھکرا دیا۔ بادشاہ نے بڑے کڑاہے کو تیز آگ کے اوپر رکھوا کر ان میں تیل ڈلوایا۔ جب تیل خوب کھولنے لگا تو اس نے کہا کہ اگر تم میری بات نہ مانو گے تو اس تیل میں تمھیں پھینک دیا جائے گا۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ تمھیں جو کچھ بھی کرنا ہو کر لو ہم اپنا دین نہیں چھوڑیں گے۔ بادشاہ کے حکم سے ایک مسلمان قیدی کو اس کی اسلام پر ثابت قدمی کی سزا کے طور پر تیل میں پھینک دیا گیا۔ وہ ایک لمحے میں جل بھن کر کباب ہو گیا۔ اپنے بھائی کی اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت عبداللہؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ رومی سمجھے کہ وہ موت سے ڈر گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے ہماری بات مان لو ہم تمھیں رہا کر دیں گے۔ حضرت عبداللہؓ نے پوری استقامت کے ساتھ جواب دیا: خدا کی قسم میں موت سے ڈر کر نہیں رویا بلکہ میں تو اس بات پر رویا ہوں کہ مجھے اپنے اس بھائی سے پہلے اس منزل سے گزرنا چاہیے تھا۔ نیز میرے دل میں یہ خیال آرہا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں ایک جان قربان کروں گا۔ کاش میری ایک نہیں ہزار جانیں ہوتیں اور میں ایک ایک کرکے اللہ کے راستے میں قربان کرتا اور اسلام سے ہٹنے کی ہر ترغیب اور پیش کش کو ٹھکراتا جاتا۔
مرد مومن کی اس پُرعزم بات سے بادشاہ اور درباریوں پر عجیب رعب طاری ہو گیا۔ آخر انھوں نے حضرت عبداللہؓ سے کہا کہ اگر وہ بادشاہ کی پیشانی چوم لیں‘ تو انھیں رہا کر دیا جائے گا۔ حضرت عبداللہؓ ذہناً اس کے لیے تیار نہیں تھے مگر فوراً ان کے دل میں ایک خیال آیا۔ انھوں نے پوچھا: اگر میں بادشاہ کی پیشانی چوم لوں تو کیا میرے سب ساتھی رہا کر دیے جائیں گے۔ بادشاہ نے کہا: ہاں۔ اس صحابی نے آگے بڑھ کر بادشاہ کی پیشانی کو چوما۔ یوں اپنے سب ساتھیوں کی قیمتی جانیں بچا لیں۔ رہا ہو کر اپنی فوج میں واپس آئے۔ کچھ عرصے بعد مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ ان کی شان دار جرأت اور عزیمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امیرالمومنین نے فرمایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ عبداللہ کی پیشانی کو چومے اور سب سے پہلے میں اس کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہوں۔
حضرت حبیب بن زید انصاریؓ مشہور صحابیہ ام عمارہؓ کے بیٹے تھے۔ ایک مرتبہ وہ عمان سے مدینہ آرہے تھے کہ راستے میں مسیلمہ کذاب کے علاقے سے گزر ہوا۔ اس نے انھیں پکڑ لیا۔ جھوٹے مدعی نبوت نے صحابیٔ رسول سے سوال کیا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، تو انھوں نے جواب دیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم جھوٹے ہو اور محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ بدبخت کذاب نے حضرت حبیبؓ کا دایاں ہاتھ کٹوا دیا اور پوچھا: ''اب مجھے رسول مانتے ہو کہ نہیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ''ہرگز نہیں‘‘ حضرت حبیبؓ کے دونوں ہاتھ اور پائوں یکے بعد دیگرے کاٹ دیے گئے مگر وہ مسیلمہ کو جھوٹا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی قرار دیتے رہے۔ پھر انھیں ایک ایک عضو کاٹ کر شہید کیا گیا۔ عاشقِ رسول نے اپنے جسم کے اعضا تو کٹوا لیے مگر جھوٹے مدعی نبوت کا مسلسل انکار کرتے رہے۔ ان کی شہادت کی خبر مدینہ پہنچی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ بہت غم زدہ ہوئے مگر حضرت حبیبؓ کے اس جذبۂ فداکاری نے سب کے دلوں میں ولولہ و حوصلہ پیدا کر دیا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں یمامہ کی جنگ میں مسیلمہ کذاب کو حضرت حبیبؓ کے بھائی حضرت عبداللہؓ اور حضرت وحشی ؓنے قتل کیا۔ اس موقع پر ام عمارہؓ بھی میدانِ جنگ میں موجود تھیں۔ (تفسیر ابن کثیر،ج 4، ص228، بحوالہ سورۃ النحل، آیت نمبر106)
سیرت کی روشنی میں آج کا پیغام یہ ہے کہ جہاں دشمن کی کھلی جارحیت کے سامنے معرکۂ کارزار گرم ہے، اس میدان میں شرکت اور مجاہدین کی پشتی بانی فرض ہے۔ اس کے خلاف زبان کھولنا اسلام دشمنی اور کفر نوازی ہے۔ دوسری جانب بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے میں زبان، قلم اور مال سے جہاد فرض عین ہے۔ اس سے روگردانی اسلام سے بے خبری کی علامت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اگر امت اور اس کے حکمران بزدلی کا لبادہ اتار پھینکیں اور حملہ آور دہشت گردوں کے مقابلے پر ڈٹ جائیں تو جہاد کی اس برکت سے دشمن منہ کی کھائے گا۔ اس طرح مسلمان معاشرے میں دھماکے اور خود کش حملے کرنے کی بجائے دستیاب وسائل کو اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کرنا ہی ذلت اور پستی سے نکلنے کے لیے مجرب نسخہ ہے۔ مسلمان معاشرے میں قتل و غارت گری اور خود کش حملے قرآن و سنت کے نزدیک بالکل حرام ہیں۔ اسی طرح لوگوں کو پکڑ کر جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرنا بھی حرام ہے۔ ایسے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کے عدالتی فیصلے کرانے چاہییں۔ یہی عدل و انصاف ہے اور یہی قرآن و سنت کا حکم۔