اسلام میں شرم وحیاکی اہمیت!

ہمارے مسلم معاشرے میں بھی مغربی تہذیب و کلچر کی یلغار نے فحاشی و عریانی کا چلن عام کر دیا ہے۔ علامہ اقبال ؒنے کافی عرصہ قبل متنبہ کیا تھا ؎
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے جوانی تیری رہے بے داغ...
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق پر شرف عطا فرمایا ہے۔ انسان کو اللہ نے عقل وشعور اور قوتِ فیصلہ عطا کی ہے۔ انسان، زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ انسان کوجو صفات دوسری مخلوقات سے ممتاز وممیز کرتی ہیں، ان میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حِسّ اور جذبۂ عفّت ہے۔ انسان کا لباس اسے موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اسے زیبائش وخوب صورتی بھی فراہم کرتا ہے لیکن سب سے اہم مقصد جو لباس سے پورا ہوتا ہے، وہ ستر کا ڈھانکنا اور اپنی حیاداری کا پاس ہے۔ اسلام میں حیا کی بے پناہ اہمیت ہے۔نبی کریم ﷺنے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان، ہرذلت وپستی میں گرنے کے لیے ہروقت آمادہ وتیار رہتا ہے جب کہ باشرم وحیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجوداپنے شرفِ انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺکا اخلاق وکردار ہرپیمانے سے منفرد، بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔ آپﷺ میں تمام فضائلِ حسنہ بدرجہ اتم واعلیٰ موجود تھے اور شرم وحیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپﷺ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ (بحوالہ صحیح مسلم، حدیث2320)
امِ معبد عرب کی ایک بدوی خاتون تھیں۔ آنحضور ﷺہجرت کے سفر میں اس کے خیمے میں مختصر وقت کے لیے رکے تھے۔ اس نے
آنحضور ﷺکا جو دل نشین حلیہ بیان فرمایا تھا، اس میں آپﷺ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ آپﷺ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیرمحرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ حضرت فضل بن عباسؓ آپﷺ کے چچا زادبھائی اور محبوب تھے۔ ایک مرتبہ وہ حج کے سفرمیں آپﷺ کی سواری پر آپﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ایک مقام پر کچھ عورتیں آپﷺ سے سوال پوچھنے لگیں تو حضرت فضلؓ کی نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں تفہیم القرآن، ج3، سورۃ النور، حاشیہ29)
نبی اکرم ﷺجس معاشرے میں پیدا ہوئے تھے، اس میں دیگر اخلاقی خوبیوں کے معدوم ہوجانے کی طرح شرم وحیا کا وصف بھی تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ بے حیائی کے تمام مظاہر کھلے عام نظر آتے تھے۔ ایسے ماحول میں جنم پانے کے باوجود آپﷺ اپنے بچپن اور لڑکپن میں بھی کبھی ننگے جسم گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی مخلوط محفلوں میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ ایک غیرمحرم مرد اور عوت کا کسی جگہ تنہائی میں اکٹھے ہونا شرم وحیا کے نازک آبگینے کو توڑ دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے آنحضور ﷺنے ارشاد فرمایا: ''جب دو غیرمحرم مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ (مسند احمد، ج1، ص18) نبی پاکﷺ نے زندگی بھرقضائے حاجت کے وقت اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا حالانکہ عرب کے اس معاشرے میں اس کا ایسا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ آپﷺ شہروں اور آبادیوں سے دور جنگل اور جھاڑیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ یہ آداب بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی بہت بڑی معاشرتی اہمیت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی شرم وحیا کے حصار میں رہتا ہے تو ذلت ورسوائی سے اس کا دامن بچا رہتا ہے۔ جب وہ اس صفت سے عاری ہوجائے تو پھر رذالت وخباثت کا ہرکام ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔ آج کل فحاشی وعریانی جدید ثقافت کا اُسی طرح حصہ بن چکی ہے جس طرح جاہلی ثقافت کا حصہ تھی۔ مخلوط محفلیں روشن خیالی اور جدّت وترقی کی دلیل سمجھی جاتی ہیں حالانکہ یہ قدیم جاہلیت کا بھی طُرّہ امتیاز تھا۔ آج کل فیشن کے نام پر مردوخواتین کے لباس ساترہونے کے بجائے عریانی کے پیامی ہوتے ہیں۔ حیا، اللہ رب العالمین کی طرف سے بندے کے لیے اس کی حفاظت کا قلعہ ہے۔ حیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندوں سے عذاب ٹالتا رہتا ہے۔ حیا سے محرومی بہت بڑی مصیبت اور بدنصیبی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو ابتدائی عمرہی میں حیا کے قیمتی زیور سے محروم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ نے لوگوں کا مزاج اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ شرم وحیا پر مبنی لباس ہو یا ادب، کتاب ہو یا خطاب، اس معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک وعید آئی ہے کہ حیاسے محروم شخص ایمان سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔(ابنِ ماجہ، ابواب الزّہد،باب الحیا،حدیث4184) 
آپﷺ کا ارشاد ہے ''اللہ جب کسی بندے کی ہلاکت کافیصلہ کرتا ہے تو اسے حیاسے محروم کردیتا ہے‘‘۔ جب کوئی حیاسے محروم ہوجاتا ہے تو نفرت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ نفرت میں مبتلا ہونے کے بعد امانت ودیانت کی صفت بھی اس سے چھن جاتی ہے۔ خائن آدمی، اللہ کی رحمت کا حق دار نہیں رہتا اور جس سے اللہ کی رحمت روٹھ جائے وہ بدترین لعنت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس لعنت وملامت کی کیفیت میں اس بدقسمت کے دل سے اسلام وایمان بھی رخصت ہوجاتا ہے‘‘۔ (بحوالہ ابن ماجہ)اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بے حیائی وفحاشی کو ہلکا سمجھ کر اس سے آنکھیں بند کرتے ہیں، پھر اسے گوارا کرنے لگتے ہیں، پھر اس کی جانب نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں اور آخر میں ان کے قدم اس کی طرف اٹھ جاتے ہیں تو وہ کس قدر خطرناک کھیل میں مصروف ہیں۔ دراصل ہلاکت محض جسمانی طور پر تباہ وبرباد ہوجانے کا نام نہیںہے بلکہ ہلاکت دل کے بے نور ہوجانے اور روح کے مردہ ہوجانے کا نام ہے۔ آنحضور ﷺخود بہت حیادار تھے۔ صحابہؓ کے دلوں میں بھی آپﷺ نے اس کی جوت جگائی اور پورا معاشرہ شرم وحیا کی حیات آفرین فضاؤں میں پروان چڑھایا۔ 
آپﷺ کے صحابہؓ میں بھی اسلام اور سنت رسولﷺ کی برکات سے شرم وحیا کی اعلیٰ صفات پروان چڑھیں۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ کایہ اعزاز تمام صحابہؓ میں ممتاز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شرم وحیا کا پتلا تھے، ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انھوں نے اپنا جسم ننگا نہیں ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی وہ اپنا ستر کسی کپڑے سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتے تھے۔نبی اکرمﷺ نے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے بھی عثمانؓ سے حیا کرتے ہیں۔ حیا کی ایک تو مخصوص شکل اور تعریف ہے جو عموماً لوگ سمجھتے ہیں مگر ایک اور مفہوم بھی آپﷺ نے امت کے سامنے بیان فرمایا۔ آپﷺ نے صحابہؓ سے کہا: ''اللہ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔ یہ مکمل حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زبانی یوں روایت ہوئی ہے:
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے حاضرین مجلس سے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیاکرو اور پوری طرح حیاجیسے اس سے حیاکرنے کا حق ہے۔ اہلِ مجلس نے بیک زبان کہا: اے اللہ کے نبیﷺ خدا کا شکر ہے کہ ہم تو اللہ سے حیاکرتے ہیں۔ حضورﷺ نے یہ جواب سن کر فرمایا:اللہ سے حیا کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ سے حیا کرنے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ:
آدمی سر کی حفاظت کرے اور دماغ میں آنے والے خیالات کی بھی نگرانی کرتا رہے۔ پیٹ کے اندر جانے والی غذا کی نگرانی کرے(یعنی حلال کھائے اور حلال پیے) نیز شرم گاہ کی حفاظت کرے (یعنی بدکاری سے بچے)۔ موت کو اور موت کے بعد گل سڑ جانے کو یاد رکھے۔ جو آدمی آخرت کا طالب ہو وہ دنیا کی زیب وزینت ترک کردیتا ہے یعنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ پھر حضور ﷺنے فرمایا:جس نے یہ کام کر لیے اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب24،حدیث2458)
آج ہم شیطان کے حملوں کے سامنے ترنوالہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنے دین وایمان، ملی تشخص اور دینی روح کو محفوظ کرنے کے لیے شرم وحیا کا کلچر عام کرنا ہوگا۔ہم اس نبی کی امت ہیں، جس نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا اور خود زندگی بھر اس پر یوں کاربندرہے کہ بدترین دشمن کو بھی اس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات، گھر، اداروں، گلی محلوں، تقریبات اور ملبوسات، ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطّر ہوجائے گا۔ کیا ہم یہ عہد کرنے اور یہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں؟ جو اب ہر فرد کی ذاتی ذمہ داری ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں