ماہِ رمضان المبارک اور میدانِ جہاد (1)

(اخلاقی اور تربیتی پہلو)
ماہ رمضان اللہ کی رحمتوں اور مغفرتوں کا مبارک مہینہ ہے۔ اسی مہینے میں قرآن پاک کا نزول شروع ہوا اور اسی مہینے کو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ماہ صیام قرار دیا۔ رمضان ۲ھ میں روزے فرض کیے گئے۔ روزہ انسانی نفس کے لیے بہت بڑا جہاد ہے۔ جہاد بالنفس کے ساتھ اللہ کے دشمنوں اور باغیوں سے جہاد کی فرضیت پر بھی اسی سال پہلی بار عمل درآمد ہوا۔ تاریخ اسلام میں غزوۂ بدر بہت اہم معرکہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یوم الفرقان قرار دیا۔ میدانِ بدر سے جس جہاد کا آغاز ہوا، اس کی تکمیل فتح مکہ کی صورت میں رمضان سن ۸ ہجری میں ہوئی۔ فتح مکہ سے گویا یہ طے ہوگیا کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں کوئی قوت اسلام کے مد مقابل باقی نہیں رہی۔ ان دونوں غزوات کا تفصیلی تذکرہ قرآن و حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ ہم اس مضمون میں محض قتال کا تذکرہ کرنے کی بجائے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت مطہرہ سے چند تربیتی پہلو اجاگر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جہاد محض قتال کا نام نہیں، یہ بہت وسیع المعنی اسلامی اصطلاح ہے۔ جہاد کا آغاز اپنے نفس سے ہوتا ہے اور جو اس میں خام ہو وہ جہاد کے کسی شعبے میں کامیاب وسرخرو نہیں ہوسکتا۔
غزوۂ بدر میں کفار مکہ نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی۔ وہ مکہ سے دو سو بیس میل شمال کی جانب سفر کرکے آئے تھے، جبکہ اہل مدینہ اپنے دفاع کے لیے مدینہ سے اسی میل باہر نکلے تھے۔ صورتحال یہ تھی کہ ایک جانب ایک ہزار کا قوی اور پوری طرح مسلح لشکر تھا۔ ہر جنگجو تجربہ کار اور کئی جاہلی اور قبائلی جنگوں میں اپنے جوہر دکھا چکا تھا۔ دوسری جانب صحابہ کرامؓ میں بھاری اکثریت نوخیز نوجوانوں کی تھی۔ نہ کبھی جنگ میں حصہ لیا تھا، اور نہ ہی زیادہ جنگی تجربہ اور سازو سامان تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ شاندار فتح عطا فرمائی، اس میں دشمن کے ستر جنگجو بشمول ابوجہل، عتبہ، شیبہ، ولید، امیّہ بن خلف اور دیگر نامور شخصیات موت کے گھاٹ اتر گئیں۔ صحابہ کرام میں سے چودہ خوش نصیب جام شہادت نوش کرکے زندہ جاوید ہوگئے۔ ان سب کے نام بدر کے مقام پر تعمیر شدہ مسجد عریش کی دیوار پر لکھے ہوئے ہیں۔ ستر کفار جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ ان سب کا ریکارڈ بھی تاریخ میں موجود ہے۔ آنحضورﷺ محض کامیاب سپہ سالار ہی نہیں تھے ، وہ محسن انسانیت بھی تھے۔ آپ نے اپنے شہدا کی تدفین کے بعد دشمن کے ستر مقتولین کی لاشوں کی طرف اشارہ کیا اور صحابہ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے عرض کیا یہ ہمارے اور اللہ کے دشمن ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا یہ ذی روح نہیں ہیں؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ انسانی لاشوں کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر آپ نے ایک گڑھا کھدوایا اور ان کو اس میں ڈال کر اس کے اوپر مٹی ڈال دی۔ یہ ہے وہ اخلاق وکردار جو ماہِ رمضان اور جنگ بدر کا اصل پیغام ہے۔ (البدایہ والنھایہ، لابن کثیر، ج۱، ص۶۲۹-۶۳۰)
سیدنا مصعب بن عمیرؓ جو مکے میں بے بہا دولت کو ٹھکرا کر اور معیار زندگی کے بت کو پاش پاش کرکے آئے تھے۔ میدان بدر میں مہاجرین کے علم بردار تھے۔ ان کے دو بھائی عبید بن عمیر اور ابوعزیز بن عمیر کفار کی فوج میں تھے۔ عبید حضرت مصعبؓ کے مقابلے پر آیا تو حضرت مصعبؓ نے اس کو قتل کردیا اور دوسرا بھائی جب بھاگا تو اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے ایک انصاری صحابی کو حضرت مصعب نے آواز دی کہ اس کو جانے مت دینا اس کے ماں باپ بہت مال دار ہیں۔اسی طرح حضرت ابوعبیدہؓ رضی اللہ عنہ کا غزوہ بدر میں سامنا اپنے باپ سے ہوا۔ باپ نے جب بیٹے کو دیکھا تو غصے میں آکر انھیں برا بھلا کہتے ہوئے حضرت ابوعبیدہؓ کی طرف بڑھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے پہلے تو طرح دے کر دوسری جانب کا رخ کرلیا، مگر جب باپ پھر سامنے آگیا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے سوچا کہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا دشمن ہے۔اس سوچ کے زیراثر انھوں نے اپنے باپ کا گلا کاٹ دیا۔ اسی وجہ سے انھیں امین الامت کا لقب عطا کیا گیا۔ یہ امانت اور دیانت کی بہترین مثال ہے۔حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ (ابوجہل کے بھائی) کو تہہ تیغ کیا تھا۔
سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے بیٹے عبدالرحمن بڑے جنگجو تھے۔ بدر کی لڑائی میں وہ کفار کی فوج میں تھے۔ قبول اسلام کے بعد ایک دن باپ بیٹا گھر میں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ غزوہ بدر کا ذکر چھڑ گیا۔ عبدالرحمن نے کہا: اباجان! بدر کے میدان میں آپ کئی مرتبہ میری تلوار کی زد میں آئے، مگر آپ میرے باپ تھے اس لیے میں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ یہ سن کرحضرت ابوبکرصدیقؓ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا: ''اے عبدالرحمن خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میری تلوار کی زد میں ایک بار بھی آجاتے تو ہرگز زندہ بچ کر نہ نکلتے۔‘‘ قرآن نے سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر22کی شانِ نزول کو جنگ بدر میں ان صحابہ کے انھی کارناموں سے منسوب کیا ہے، جس کے آخر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی!۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبرداررہواللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔
جنگ بدر کا فیصلہ ہوجانے کے بعد قریش نے راہِ فرار اختیار کی۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور انھیں گرفتار کرنے لگے۔ جب کوئی جنگجو قیدکر لیا جائے تو اس کی جان محرم ہوجاتی ہے الا یہ کہ کسی کے جرائم ایسے ہوں جو اس کے قتل کا تقاضا کرتے ہوں۔ ستر کفار جنگی قیدی بنائے گئے۔ غزوہ بدر کے بعد جنگ سے متعلق فریقین کا جو حال ہوا وہ دل چسپ بھی ہے اور عبرت انگیز اور ایمان افروز بھی۔ اہلِ ایمان اللہ کی نصرت پر شاداں وفرحاں تھے، جبکہ کفار اپنے کرتوتوں کی سزا پاکر بے حوصلہ اور بددل ہوچکے تھے۔ اہلِ نفاق اور اہلِ کتاب کا حال سب سے سوا تھا۔ اہل حق کی فتح سے وہ آتش زیر پا تھے۔ ان کی اسلام دشمنی چھپائے نہ چھپتی تھی اور وہ قریشِ مکہ سے بھی زیادہ تلملارہے تھے۔ فتح کے بعد نبی اکرم ﷺ نے بدر کے میدان سے دو صحابہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور زید بن حارثہؓ کو تیز رفتار اونٹنیوں پر مدینہ کی طرف روانہ کردیا۔ انھیں حکم دیا کہ ایک بالائی جانب سے اور دوسرا زیریں جانب سے مدینہ میں داخل ہو اور اہلِ ایمان کو فتح کی بشارت سناتا چلاجائے۔
مدینہ میں تین اہم صحابہ موجود تھے، ایک حضرت عثمانؓ جنھیں آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ رقیہؓ کی تیمارداری کے لیے مدینہ رہنے کا حکم دیا تھا۔ دوسرے حضرت اسیدبن حضیرؓ جو مدینہ میں موجود نہیں تھے، جب واپس آئے تو خیال کیا کہ آپ تجارتی قافلے کے پیچھے گئے ہیں، تیسرے حضرت ابولبابہؓ جن کو آپﷺ نے مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر کیا تھا۔ بشارت دینے والوں میں سے زید بن حارثہؓ پہلے مدینہ پہنچے اور حضرت ابولبابہؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر فتح کی خوش خبری سنائی۔ پھر عبداللہ بن رواحہؓ بھی پہنچ گئے۔ (البدایہ والنھایہ، لابن کثیر، ج۱، ص۶۵۰)۔ نبی اکرم ﷺ جب جنگی قیدیوں کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچے تو حضرت اسیدبن حضیرؓ نے آپ کا مدینہ سے بیس میل دور استقبال کیا اور آپ کو فتح کی مبارک باد دی۔ اس موقع پر ایک بہت اہم اور سبق آموز واقعہ رونما ہوا۔ حضرت اسید بن حضیرؓ کی بات سن کر ایک نوجوان صحابی حضرت سلمہ بن سلامہؓ نے کہا بخدا ہمارے مخالفین تو قربانی کے جانوروں کی مانند تھے۔ ہم نے انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا، اگرچہ یہ ایک نوجوان فاتح کے پرجوش جذبات تھے، مگر آنحضورﷺ جو مربی اعظم اور رحمۃ للعالمین تھے انھوں نے فوراً فرمایا: ''سلمہ وہ معمولی لوگ نہیں تھے، بلکہ سرزمین عرب کے سب سے زیادہ ذی وقار اور طاقت ور لوگ تھے۔ انھیں اللہ نے شکست دی۔ ورنہ وہ بھیڑ بکریاں نہیں تھے۔‘‘
آنحضور ﷺ کے اس فرمان کے اندر کتنی عظمت ہے۔ ایک جانب اپنے صحابہ کی تربیت کی جارہی ہے کہ ہرچیز کو اللہ کی عطا سمجھیں نہ کہ اپنی بہادری اور کارکردگی۔ دوسرا آپﷺ کے پیش نظر یہ تھا کہ ستر جنگی قیدی جو آپ کے ساتھ تھے ان کے زخموں پر نمک ڈالنے کی بجائے مرہم رکھا جائے، کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ ان میں سے کئی قیدی بہت اہم لوگ ہیں اور اگر وہ اسلام کی طرف آجائیں تو یہ اہلِ ایمان کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ ایسا کوئی فاتح دنیا میں کہاں ہوگا! (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں