پیغمبرِاسلامؐ کا منشور

دورِ جدید میں مسلمان خود کو زبان سے تو اسلام کے پیروکار کہتے ہیں مگر عملاً اسلام کی تعلیمات سے دور چلے گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج اسلام کا دعویٰ کرنے والے نہ تیتر ہیں نہ بٹیر۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہوں، نکاح مسلمانوں کے طریقے پر ہو، مرجائیں تو جنازہ نصیب ہو اور مسلمانوں کے قبرستان میں قبر ہو۔ دوسری جانب عملی پہلو دیکھیں تو شادی جاہلی رسوم ورواج کے ساتھ منعقد ہوتی ہے اور زندگی کا ہر معمول غیراسلامی تہذیبوں کا چربہ ہوتا ہے۔ سیاست سے لے کر معیشت تک اور تعلیم سے لے کر معاشرت تک ہر معاملے میں غیراسلامی طرزِعمل دھوم دھڑلے سے اپنایا جاتا ہے۔ یہ محمدِعربیؐ کے غلاموں کا طریقہ نہیں ہوسکتا۔ بندۂ مومن کا تو کام یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اسے مضبوطی سے پکڑ لے اور جس چیز سے وہ منع فرمادیں، اسے مکمل طور پر ترک کردے۔
ہماری معیشت سود پر مبنی ہے، ہماری اشرافیہ شراب نوشی کی مجرم، ہمارا معاشرتی ڈھانچہ مخلوط محفلوں اور رقص وسرود کا غلیظ ڈھیر، نماز میں ہم عیدین، جنازہ یا جمعہ کی نماز تک محدود، پھر سوچنے کی بات ہے کہ اللہ ورسول کی نظروں میں ہمارا کیا مقام ہوگا؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے اپنی جگہ مگر اتباعِ رسولؐ میں کوتاہی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود !
یوں تو سیّد بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
سیرت رسولؐ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ہر سوال کا عملی جواب مل جاتا ہے۔ طائف کے قبیلہ بنوثقیف کے لوگ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے دشمن تھے۔طائف کا سفر سیرت نبویؐ کا وہ باب ہے جسے پڑھتے ہوئے کتابوں کے اوراق بھی سچے عاشقانِ رسولؐ کے اشکوں سے تر ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ فتح مکہ اور غزوہ حنین و ہوازن کے بعد اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے تو انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرائط پیش کیں جو حدیث اور تاریخ میں منقول ہیں۔
بنوثقیف کا وفد مدینہ آیا تو آپؐ کے ثقفی صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا قبیلہ مسلمان ہوجائے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت خالد بن سعید جن کی والدہ بنوثقیف سے تھیں، ان لوگوں کو کھانا فراہم کرتے رہے۔ حضرت خالد بن سعیدؓ بڑے عالم، فاضل اور مجاہد صحابی تھے۔ حبشہ اور مدینہ دونوں جانب ہجرت کا شرف حاصل کیا۔ اسی لیے ''صاحب ذی ہجرتین‘‘ کہلاتے تھے۔ ایک دن حضرت خالد بن سعیدؓ بنوثقیف کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے تو ان لوگوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی شرائط یہ ہیں:
(1)انھیں شراب نوشی کی اجازت دی جائے۔ (2)ان کے لیے سود کی حرمت ساقط کر دی جائے۔ (3)انھیں زنا کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ (4) نماز کی پابندی ان پر سے ساقط کر دی جائے۔ (5) ان کے بت لات کو مستقل نہیں تو کم از کم تین سال کے لیے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ شرائط پہنچائی گئیں تو آپؐ نے ان کو یک سر مسترد کردیا۔ آپؐ جانتے تھے کہ ان شرائط کو ماننے کے بعد اسلام نہیں، کفر باقی رہ جاتا ہے۔ حضرت مغیرہؓ اس دوران وفد کو بھی سمجھاتے رہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مسلسل رابطے میں رہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی درخواست کرتے رہے کہ یا رسول اللہ! ان سے نرمی برتی جائے۔ ایک بار یہ اسلام میں داخل ہوجائیں تو ان کی تربیت بھی ہوجائے گی اور یہ غیر اسلامی شعائر بھی ترک کردیں گے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مغیرہؓ کو پیار سے سمجھاتے کہ وہ ان سے ہر ممکن نرمی برتیں گے مگر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے کسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، نہ ہی مداہنت برتی جاسکتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ لوگ حضرت مغیرہؓ کے گھر جا کر کھانا کھاتے اور مسجد نبوی کے اندر بھی آکر بیٹھ جاتے تھے۔ ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ جب وہ پہلی مرتبہ مسجد میں آئے تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ لوگ مشرک ہیں اور مسجد میں داخل ہوگئے ہیں۔ آپؐ نے جواب دیا: ''اِنَّ الْارْضَ لَا یُنَجِّسُھَا شَیْیٌٔ‘‘ یعنی اللہ کی زمین کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (المغازی للواقدی ج3، ص 964) 
اس دوران یہ لوگ جب بھی مسجد میں آتے، صحابہ کی تلاوت سنتے۔ فرض کی نمازوں کے دوران اہلِ ایمان کی صف بندی اور نماز میں ان کی محویت کا عالم دیکھتے۔ صحابہ کی شب بیداری، راتوں کو آہ و زاری اور اللہ سے مغفرت کی طلب کے مناظر دیکھتے تو ان کے دل گواہی دیتے کہ یہ سچے اور اللہ والے لوگ ہیں۔ یہی کامیاب و سرخ رو ہوسکتے ہیں۔ علمی و عقلی دلائل و براہین بھی دلوں کا زنگ اتارنے اور دماغوں کے عقدے کھولنے اور اسلام کا راستہ ہموار کرنے میں مفید ہوسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا عملی نمونہ ہی کسی شخص کو قبولیتِ حق پر قائل و مائل کرسکتا ہے۔ دنیا میں جب بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے تو ایک بہت بڑی تعداد ان میں سے ان لوگوں پر مشتمل رہی ہے جو اہلِ ایمان کے عملی نمونے سے متاثر ہو کر اسلام کا حصہ بنے ہے۔ 
ان لوگوں میں سب سے پہلے جو شخص مسلمان ہوا، اس کے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی بہت عجیب و ایمان افروز ہے۔ قبولِ اسلام سے قبل یہ لوگ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مسجد کی طرف آتے تو عثمان بن ابی العاص کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ جاتے کیونکہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد واپس آکر یہ لوگ سو جاتے تو عثمان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ اپنے وفد کو بتائے بغیر اس نے اسلام قبول کرلیا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ اس کے قبولِ اسلام کے بارے میں ابھی وفد کو نہ بتایا جائے۔ حضرت عثمانؓ نے نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات بھی ذوق و شوق سے حاصل کرنا شروع کر دی تھیں۔ حضرت عثمانؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ جس شخصیت سے محبت تھی وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابیّ بن کعبؓ، جنھیں حافظ قرآن و عالمِ دین ہونے کا شرف حاصل تھا،سے کہا کہ وہ عثمان کی خصوصی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ حضرت ابیّ نے یہ فرض بخوبی ادا کیا اور حضرت عثمانؓ کو قرآن کی روشنی سے منور کر دیا۔ 
اس وفد کا قیام کئی دنوں تک مدینہ میں رہا۔ آخر ایک روز عبدیالیل نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہم سے صلح کرلیں تاکہ ہم اپنے اہل و عیال کے پاس جاکر انھیں صلح کی یہ خوش خبری سنا دیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں تم سے ضرور صلح کرلوں گا بشرطیکہ تم اسلام قبول کرلو۔ اگر تم اسلام کو رد کردو تو پھر میں تمھارے ساتھ کیسے صلح کرلوں؟ اس پر سردارِ وفد نے کہا کہ زنا کے متعلق آپؐ نے سخت احکام دیے ہیں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار اورتجارتی سفر کے دوران اپنے گھروں سے کافی عرصے تک دور رہتے ہیں۔ اس عرصے میں ہمارے لیے زنا کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ نے نکاح کو حلال کیا ہے اور زنا کو حرام قرار دیا ہے۔ عبدیا لیل نے سود کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ ہمارے تو کاروبار ہی سود پر چلتے ہیں۔ اس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ تمھیں اپنا اصل زر حاصل کرنے کا حق ہے مگر سود کو اللہ نے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔ آپؐ نے قرآن مجید سورۂ بقرہ سے وہ آیات (279،278) پڑھیں، جن میں سود کی مکمل حرمت کا حکم ہوا ہے۔ 
آج یہ سارے بنیادی اصول ہمارے سامنے بالکل واضح ہیں۔ ہم جانتے بوجھتے ان کو پامال کرتے ہیں ۔ جن لوگوں نے آنحضورؐ سے یہ سوال وجواب کیے تھے وہ آپؐ کے دلائل سے قائل ہوئے تو کفر چھوڑ کر سچے مسلمان بن گئے۔ ہم پیدایشی وروایتی مسلمان ہیں۔ ہمارا دعویٰ کچھ ہے اور عمل کچھ۔ یہی ہمارے تمام مصائب کی بنیادی وجہ ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے روایتی وخرافاتی مسلمان کی بجائے ہمیں نظریاتی وعملی مسلمان بننا ہوگا۔ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا ہی مطلوب ہے۔ ایک پاؤں اسلام کے اندر اور ایک پاؤں باہر! اسلام میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں